وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد نے کہا ہے کہ تاجروں کے اندراج اور ٹیکس کے نفاذ پر حکومت کا دباؤ میں آنا ناممکن ہے اور وہ معیشت کی سمت درست کرے گی۔
’اردو نیوز‘ کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں نہ آنے کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل ہونا ہوگا، اس میں بے شک وقت لگے۔
رزاق داؤد نے کہا کہ تاجر مینوفیکچررز کے زریعے حکومت پر دباؤ ڈلوانے کے خواہشمند ہیں کیونکہ حکومت نے شرط رکھی ہے کہ مینوفیکچررز اپنی مصنوعات صرف رجسٹرڈ کمپنی کو بیچ سکیں گے۔
’تاجر کیا کہتا ہے کہ رجسٹریشن مت کراو، مینو فیکچررز خود جائیں گے حکومت کے پاس اور دباؤ ڈالیں گے کہ ان کو چھوڑدو، تو وہ تو ناممکن ہے۔ ہمیں پاکستان کی اکانومی کو صحیح سمت میں لے کر آنا ہے۔‘
رزاق داؤد کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریفارمز کے نفاز میں وقت لگے گا لیکن حکومت ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے اور رجسٹریشن نہ کروانے کے رویے کو بدلے گی۔
’تاجر زیادہ ناراض ہیں، کہ ہم لوگ تو کبھی ٹیکس نیٹ میں آئے ہی نہیں ہیں، تو ہم کیوں ٹیکس نیٹ میں آئیں، تو یہ ہے، ایک مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے، ٹائم لگے گا، لیکن ہو جائے گا۔‘
تاہم انہوں نے توقع ظاہر کی کہ حکومت تاجروں کو ہڑتال نہ کرنے پر راضی کر لے گی۔
’مذاکرات روز ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں مجھے امید ہے کہ وہ ہڑتال پر نہیں جائیں گے انشاللہ فیصلہ ہو جائے گا۔‘
رزاق داؤد نے اردو نیوز کو بتایا کہ چین کے ساتھ طے پانے والے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے دوسرے حصے کا نفاز یکم دسمبر سے ہو جائے گا جس کے بعد پاکستانی تاجروں اور برآمد کنندگان کو چین میں وہ رسائی مل جائے گی جو اس وقت آسیان ممالک کو حاصل ہے اور انہیں 313 اشیا پر بغیر کسی ڈیوٹی کے چینی مارکیٹ میسر ہو گی۔ اس رسائی کے بعد پاکستان بنگلہ دیش، انڈیا اور آسیان ممالک کے برابر آ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انڈونیشیا اور ملائیشیا سے بھی تجارتی تعلقات بہتر بنائے ہیں جبکہ قطر کی طرف سے پاکستان پر لگائی گئی کئی تجارتی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں اور پاکستان اب قطر کو دوبارہ سے چاول بھیج رہا ہے۔
تاہم رزاق داؤد نے اعتراف کیا کہ ابھی ترکی کے ساتھ تجارت بڑھانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور کوریا کے ساتھ بھی تجارت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
’یہ پانچ ممالک ہیں جہاں مجھے جانا ہے اور وہاں ہمیں مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں رزاق داؤد نے کہا کہ ماضی میں ’پاکستان کی ایک بہت بہت بڑی کمزوری یہ رہی کہ پاکستان دنیا میں کہیں بھی علاقائی تجارتی گروپنگ میں (شامل نہیں رہا)۔‘
’ایک گروپ افریقہ میں ہے، وہاں پر ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، افریقہ میں تین چار مختلف گروپس ہیں، ہم وہاں گئے ہی نہیں ہیں، وہاں جانا ہے، ایک اور گروپ بن رہا ہے، وسطی ایشیائی ممالک، ان کے ساتھ بھی شامل ہونا چاہیئے، (اس مقصد کے لیے) ایک (مسلسل) کوشش کرنا پڑتی ہے، اس کے پیچھے لگا رہنا پڑتا ہے۔‘
رزاق داود نے بتایا کہ ان کی حکومت تجارتی خسارہ 19 ارب ڈالر تک لانے کی کوشش کر رہی ہے جو پاکستان کے لیے ایک مستحکم سطح ہوگی۔
’پاکستان میں پچھلے سال تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہو گیا تھا، 37 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ تھا۔ وہ ہم لوگ برداشت نہیں کر سکتے، وہ 37 سے 31 ہو گیا ہے، ابھی ہماری کوشش ہے کہ 19 تک آجائے۔‘
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی جون 2020 تک آٹھ سے نوارب ڈالرتک رہ جائے گا جوکہ قابل برداشت ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں رزاق داود نے بتایا کہ پاکستان چینی کمپنیوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ویت نام اورکمبوڈیا کی بجائے یہاں آئیں کیونکہ پاکستان میں مواقع بہترہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ کمپنیاں تو پہلے سے ہی پاکستان آ گئی ہیں اور ان میں سے ٹائر بنانے والی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے جو پاکستان میں کاروں، ٹرکوں اور ٹریکٹروں کے ٹائر بنا کریہاں سے امریکہ برآمد کرے گی۔
’ایک امریکن کمپنی، ایکسن موبل، ایک جاپانی کمپنی بے بی فوڈ میں، اور ٹیکسٹائیل کی ایک کمپنی بھی آگئی ہے۔ مجھے ملائشیا اور ترکی سے بھی سرمایہ کاری کی امید ہے۔‘
رزاق داؤد نے بتایا کہ ورلڈ بینک کی تازہ ترین درجہ بندی میں پاکستان 147ویں سے 108ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
’اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر ملکی اور پاکستانی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر ہو گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
’سی پیک کی رفتار میں کمی نہیں آئی‘Node ID: 437301
-
’سی پیک کے لیے چینیوں پر انحصار کم کریں‘Node ID: 437506
-
تاجروں کی شکایات کے ازالے کے لیے نیب کی نئی کمیٹیNode ID: 439191