توکل ترک اسباب کا نام ہرگز نہیں اور نہ ہی کسی مؤمن کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ صرف اسباب پر بھروسہ کرلے اور مسبب الاسباب کو بھول جائے چاہے وہ جائز اسباب ہی کیوں نہ اختیار کر رہا ہو
مولانا امان اللہ اسماعیل ۔ جدہ
* *توکُّل کے لفظی معنی* *
’’توکُّل‘‘ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی کسی کام یا معاملے کو کسی کے سپرد کرنے کے ہیں۔ یا یہ کہ کسی پر مکمل اعتماد کیا جائے۔ اس لئے عربی میں الوکیل اسے کہتے ہیں جو دوسروں کے کام کی نگرانی کرے۔
* * شرعی و اصطلاحی معنی* *
’’توکُّل‘‘ دراصل انسان کی باطنی کیفیت کا نام ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور عمل کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ’’توکُّل‘‘ دراصل اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر اعتماد کا دوسرا نام ہے۔ مومن کا اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتماد کرتے ہوئے وہ تمام تدابیر اختیار کرے گا جس کو شریعت نے مشروع کیا ہے تو کامیابی یقینی ہے اور وہ تمام تدابیر جو بظاہر کتنی ہی مؤثر نظر آتی ہوں مگر خلاف شریعت ہوں، انہیں اختیار کرے گا تو وہ ضرور ناکام ہوگا، تو دراصل وہ شریعت کی رو سے متوکل باللہ ہے۔ توکل ترک اسباب کا نام ہرگز نہیں اور نہ ہی کسی مؤمن کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ صرف اسباب پر بھروسہ کرلے اور مسبب الاسباب کو بھول جائے چاہے وہ جائز اسباب ہی کیوں نہ اختیار کر رہا ہو۔ کیونکہ اختیار اسباب تو ضروری ہےہی مگر اس کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے یہ یقین ٹپک رہا ہو کہ ان اسباب میں تاثیر ڈالنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، یعنی اصل توکل علی اللہ ہے اور یہ ہی توحید باللہ ہے۔ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام مفسرین حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اپنی مایہ ناز تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں توکل علی اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’توکل ترک اسباب اور ترک تدابیر کا نام نہیں۔ بلکہ اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاءؑاور تعلیمات قرآن کریم کے خلاف ہے‘‘ (معارف القرآن، صفحہ ۲۲) اب اللہ تعالیٰ کے قانون پر ا عتماد کو ایک مثال سے سمجھئے۔ مثلاً قرآن کریم کہتا ہے زکوٰۃ دینے سے مال بڑھتا ہے، اور سود لینے سے مال گھٹتا ہے، اب بظاہر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آرہی، کیونکہ زکوٰۃ دینے سے مال گھٹتا نظر آتا ہے اور سود لینے سے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر ہمیں یقین یہی ہونا چاہئے کہ زکوٰۃ دینے سے مال بڑھے گا اور سود لینے سے مال گھٹے گا۔ اب زکوٰۃ دینے سے مال کس طرح بڑھے گا۔ یہی وہ بات ہے جس کو سمجھ لینے سے اختیار اسباب اور توکل کا مفہوم سمجھ میں آجائے گا۔ مثلاً آپ کے پاس سال کے آخر میں ایک لاکھ روپے ہیں تو آپ اس میں سے ۲۵۰۰ روپے زکوٰۃ ادا کریں گے اب آپ کے پاس جو بقایا ۹۷۵۰۰ روپے بچ گئے ہیں اگر ان کو سارا سال تجوری میں بند کرکے رکھ دیں گے تو وہ خود بخود نہیں بڑھ جائیں گے، بلکہ آپ کو اس رقم کو کسی ذریعہ سے بھی جو شریعت نے مشروع کیا ہو تجارت میں لگانا پڑے گا تاکہ اس مال میں برکت کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ اسے پہنچ سکے اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈالنے کے لئے اسے تجارت میں لگوانے کا محتاج ہے ایسا ہرگز نہیں مگر دراصل اس عالم اسباب میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت جاری ہے دیکھئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یتیم کے مال کو تجارت میں لگائو ورنہ اسے صدقہ کھا جائے گا، آپ کے اس فرمان نے اختیار اسباب اور توکل کے مسئلہ کو بالکل واضح فرمادیا اور توکل کے مسئلہ کو ایسا کھول کر بیان فرما دیا کہ پھر اس مسئلہ میں کوئی ابہام ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح یہ قانون خداوندی ہر چیز میں جاری و ساری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک طرف اعمال صالحہ پر گامزن تھے تو دوسری طرف تدابیر صالحہ بھی اختیار کئے ہوئے تھے جو اصل توکل کی روح ہے اور اسی راستے نے ان کو دین و دنیا کی فلاح سے ہمکنار کیا مگر بعد کے ادوار میں یا تو لوگوں نے بالکل ترک اسباب کا عقیدہ ایجاد کرلیا یا پھر بالکل اللہ اور رسول کے طریقے کو چھوڑ کر اور اللہ سے بیگانہ ہوکر اپنے جائز ناجائز اسباب پر بھروسہ کر بیٹھے، دراصل یہ دونوں ہی نظریات حق سے دور ہٹے ہوئے ہیں اور بات صاف اور بے غبار یہی ہے جو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے فرمائی ہے کہ’’اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاءعلیہم السلام اور تعلیمات قرآن کریم کے خلاف ہے‘‘ اب ہم مندرجہ ذیل سطور میں قرآن حکیم اور اسوئہ رسول اور آثارصحابہؓ و تابعینؓ سے چند مثالیں پیش کر رہے ہیں، جس سے مسئلے کی پوری وضاحت ہو جائے گی۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ: ان سے (یعنی صحابہؓسے) خاص خاص باتوں میں (بدستور) مشورہ لیتے رہا کیجئے، پھر (مشورہ لینے کے بعد) جب آپ (کسی ایک جانب) رائے پختہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ پر (توکل) اعتماد کرکے اس کام کو کر ڈالا کریں بیشک اللہ تعالیٰ ایسے توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔(سورہ آل عمران، آیت ۱۵۳) مندرجہ بالا سطور میں آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرما رہا ہے کہ آپ صحابہ ؓسے مشورہ فرمالیا کریں، اگر احتیاط کا پابند ہونا توکل کے منافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو مشورے کا پابند نہ کرتا۔ دراصل مشورہ اسی لئے تو ہوتا ہے کہ جس شخص کے پاس شر سے بچائو کی کوئی تدبیر ہویا اور کوئی احتیاط کا پہلو ہو تو سامنے آجائے، جس سے انسان آئندہ کے امور کی منصوبہ بندی کرسکے، اور شر سے بچائو کی کوئی راہ ڈھونڈ سکے۔ جب ہمارے نبی حضرت محمد کو مشرکین کے منصوبہ کا علم ہوا تو آپ مدینہ منورہ ہجرت کر گئے، اور راستے میں غار میں پناہ لی اور حضرت ابوبکرؓنے غار کا دہانا بند فرماکر احتیاط کا پہلو اختیار فرمایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ ؑسے کہا گیا کہ رئیس لوگ آپ کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو آپ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔
اسی طرح قرآن مجید (سورہ یوسف) میں یہ واقعات مذکورہ ہیں کہ حضرت یعقوب ؑنے اپنے فرزند سیدنا یوسفؑکو مشورہ دیا کہ وہ اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کریں ورنہ وہ حسد کریں گے یہ واقعہ بھی احتیاط ہیکے قبیل سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت یوسفؑ کے بھائی مصر گئے تو ان سب کو حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا کہ سب ایک دروازہ سے داخل نہ ہوں یہ بھی ایک طرح کی احتیاط ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی نعمتوں کا اظہار چاہتا ہے اسی طرح اپنی ودیعتوں کا بھی اظہار چاہتا ہے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بھی ہے اور ودیعت بھی ہے جس سے کام لینا دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکرانہ ادا کرنا ہے۔ انسان اور جانور میں عظیم فرق ہی یہ ہے کہ انسان کو عقل سے نوازا گیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت کو ہم بیکار چھوڑ دیں اور اس سے کوئی کام نہ لیں اور صرف اس کی عنایت پر ہی بھروسہ کرلیں تو یہ اسلام کا منشاء ہرگز نہیں ہمیں چاہے کہ مقدور بھر اپنے وسائل کو کام میں لائیں اور جو ہماری رسائی سے باہر ہو اسے اللہ تعالیٰ سے طلب کریں۔ دیکھئے! جب عزیز مصر نے خواب دیکھا کہ سات دبلی گائیں سات فربہگائیں کھا جاتی ہیں اور یوسف ؑ نے جب اس کی تعبیر فرمائی کہ مصر میں پہلے سات سال نہایت فراوانی کے ہوں گے اور بعد کے سات سال خشک سالی کے ہوں گے اور اس صورت حال سے چھٹکارا پانے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش فرمائیں تو عزیز مصر نے آپ کو ملک کے وسائل سپرد کردیئے۔ پھر آپ نے فراوانی والے سالوں کے اناج کو ذخیرہ فرمایا اور خشک سالی والے سالوں میں لوگوں کو قحط سے بچایا، یہاں پر ایک نبی کا فعل اس بات کی صاف دلیل ہوسکتی ہے کہ ضرورت پر اناج وغیرہ کا ذخیرہ کرنا اور اس طرح کی منصوبہ بندی کرنا ہرگز توکل کے منافی نہیں۔ اسلام دراصل ایک عملی مذہب ہے اس میں راہبانہ طرزِعمل کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام انسان کی روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے اور اس کی پوری رہنمائی کرتا ہے اسلام میں پوری قوت اور طاقت ہے کہ وہ دنیا کے ہر نظام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے اور اپنی سچائی کے دعوے کی عملی شکل کو دلائل سے ثابت بھی کرسکے۔ اب چونکہ قیامت تک کوئی پیغمبر آنے والا نہیں، اس لئے قیامت تک پیدا ہونے والے ہر مسئلے کے حل کا احاطہ بھی اسی نے کیا ہوا ہے۔
اب یہ اس کے ماننے والوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن و سنت سے روشنی حاصل کریں اور اس جہاں کو روشن کردیں خیرہم یہ کہہ رہے تھے کہ احتیاط کسی طور بھی توکل کے منافی نہیں کیا ہم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چرند اور پرند کو وہ اوزار عطا فرمائے ہیں، جن سے وہ شر کو بھی دفع کرتے ہیں اور روزی بھی حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً پنجے، چونچ، ناخن اور تیز بینائی وغیرہ اسی طرح انسان کو عقل کے زیور سے نوازا ہے۔ جس سے وہ ہر طرح کا کام لے سکتا ہے۔ جب عقل وحی الٰہی کے تابع ہوکر چلتی ہے تو تسخیر کائنات وجود میں آتی ہے۔ انسان اپنی عقل کو استعمال کرکے شر سے بچائو کی صورت اختیار کرتا ہے۔ دیکھئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ: وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ۰ۚ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ۰ۚ اَللہُ يَعْلَمُہُمْ۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۶۰ (سورۃ الانفال، آیت ۶۰) تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ اور اپنے دشمنوں اور ان کے علاوہ اوروں کو بھی خوف زدہ کرسکو۔ اسی طرح اور بہت سی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اختیار اسباب توکل کے ہرگز منافی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ توکل کرنے والے کے اعضاء وجوارح کام میں ہوتے اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہوتا۔ کسی عارف نے خوب کہا کہ ’’دست بکاردل بیار‘‘ مطلب یہ ہے ہاتھ سے تمام جائز تدابیر اختیار کی جا رہی ہوں اور دل اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو اور یہ پختہ یقین دل کی گہرائی میں موجود ہو کہ پروردگار میری جائز تدابیر کو ضرور بارآور فرمائے گا۔ انبیاء کا اسوئہ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ سیدنا آدم ؑ کاشت کار تھے حضرت نوح ؑ اور زکریا ؑ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس ؓکپڑا سیتے تھے، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت شعیب ؑاور ہمارے پیارے رسول نے بکریاں چرائی ہیں۔
اب ذرا صحابہ کرامؓ کے احوال بھی دیکھ لیں۔اللہ کے رسول نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں، جس کی بھی پیروی کرو گے راہ پاجائو گے، سب سے پہلے افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ذکر کرتے ہیں۔کہ جب ان پر خلافت کا بار ڈالا گیا تو دوسرے روز حسب معمول چند چادریں لے کر بازار میں فروخت کے لئے تشریف لے چلے تاکہ اپنی روزی کمائیں۔ راستے میں سیدنا عمر فاروق ؓ اور حضرت ابو عبیدہ ؓ ملے پوچھنے پر بتایا کہ میں عیال دار آدمی ہوں، مجھے ان کے لئے روزی کمانی ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےصحابہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے آپ کے لئے وظیفہ مقرر کردیا گیا۔( فضائل اعمال، از مولانا زکریا ) یہ تناسب تھا اختیار اسباب اور ترک اسباب میں جو وہ حضرات سمجھے ہوئے تھے۔ حضرت صدیق اکبر ؓکے اس جواب پر کہ میں عیال دار آدمی ہوں اور میں اپنے کنبے کو کہاں سے کھلاؤں گا کسی صحابی ؓنے ان سے یہ نہیں کہا کہ یہ سوچ توکل کے خلاف ہے۔ اب کچھ اور بڑے بڑے اکابر صحابہ ؓکا حال ملاحظہ ہو۔ حضرت عثمانؓ، حضرت عبیدالرحمنؓ اور حضرت طلحہ ؓکپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت زبیرؓ اور حضرت عمرو بن عاص ؓ تیر بناتے تھے اور حضرت ابن طلحہ ؓدرزی تھے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کی ہوئی صلاحیتوں کو ترک کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اسلامی توکل ہرگز نہیں۔
اب سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا طرزِ عمل بھی ملاحظہ ہو ایک دفعہ حضرت فاروق اعظمؓ نے قاریوں کی جماعت سے فرمایا کہ ذرا اپنے سر اٹھائو کیونکہ راستہ بالکل روشن ہے، نیکیوں کے لئے سبقت کرو اور مسلمانوں کے محتاج بن کر نہ رہو، اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ جب کسی جوان کی حالت دیکھ کر اس سے خوش ہوتے تو اس کا حال لوگوں سے دریافت فرماتے کہ آیا نوجوان کوئی پیشہ بھی کرتا ہے؟ اگر لوگ بتاتے کہ اس کا کوئی پیشہ نہیں ہے تو فرماتے یہ جوان میری نگاہ سے گرگیا۔ حضرت سعید بن مسیّبؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہ شام کی طرف تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کہے کہ میں کچھ پیشہ نہیں کروں گا اور میرا رزق خود چل کر میرے پاس آئے گا، امام صاحبؓ نے فرمایا یہ شخص علم نہیں رکھتا اور فرمایا کہ کیا تم نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے پرندوں کا ذکر فرمایا کہ وہ صبح بھوکے ہوتے ہیں اور علی الصبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ان لوگوں کا ذکر ہے جو تلاش رزق کے لئے سفر کرتے ہیں (سورۃ المزمل) حج تک کے سفر کے لئے فرمایا کہ اگر ان سفر میں بھی اللہ کا فضل یعنی رزق کوئی تلاش کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خشکی و تری میں تلاش رزق کے لئے سفر فرماتے تھے اور اپنے باغوں کو پانی دیتے تھے۔ ہمیں صحابہؓ ہی کی پیروی کرنی چاہئے۔
صحابہؓ کے بعد تابعین بھی ان کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ میں توکل پر حج کے لئے جانا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا اکیلے یا قافلے کے ساتھ۔ اس نے جواب دیا قافلے کے ساتھ ہی جائوں گا۔ اس پر حضرت امام صاحبؒ نے فرمایا کیا پھر لوگوں کے تھیلوں پر بھروسہ کرکے جا رہے ہو؟ اسی طرح امام احمد ؒ سے ان کے فرزند نے پوچھا کہ توکل کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا اچھا ہے مگر آدمی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ذمے نہ ہو جائے۔ بلکہ کسب کرے تاکہ خود اور اس کے اہل و عیال خوش حال ہوں۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒسے ا یسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو کسب نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم متوکل ہیں تو جواب میں حضرت امام نے فرمایا یہ لوگ بدعتی ہیں۔ اب ذیل میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں جن سے عظمتِ کارکی اہمیت واضح ہو جائے گی اور کسی کے ذمہ ہو جانے کی مذمت بھی۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ میں انگارے چنتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) ایک اور جگہ فرمایا کہ: ’’جو شخص اپنے کو مانگنے کا عادی بنالے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کی کوئی بوٹی نہیں ہوگی۔‘‘ (متفق علیہ) ایک اور جگہ فرمایا کہ: ’’کسی شخص کا رسی لے جانا اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لانا اور اسے بیچ دینا کہ اللہ اس کے ذریعہ اس کی آبرو کو بچالے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے اور پھر لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔‘‘(متفق علیہ)