Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے‘

نوازشریف کی درخواست پر وزارت داخلہ کا موقف

پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست جمع کرائی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق شریف میڈیکل سٹی سے نواز شریف کی صحت کی رپورٹ منگوائی گئی ہے۔ یہ رپورٹ میڈیکل بورڈ سے اس کا موقف معلوم کرنے کے لیے منگوائی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’شہباز شریف کی جانب سے بھیجی گئی درخواست کی حساس نویت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ضروری اقدامات بر وقت اٹھائے گئے ہیں-‘
’وزارت داخلہ تمام حقائق اور فریقین کے موقف سامنے رکھ کر مجاز اتھارٹی کے سامنے اپنی سفارشات رکھے گی-‘
یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ’نواز شریف کا نام ای سی ایل میں نہیں ہے۔‘

نواز شریف کے علاج کے لیے جاتی امرا میں آئی سی یو موجود ہے، فوٹو: مسلم لیگ ن

مریم نواز کیا کہتی ہیں؟

اس سے قبل جمعے کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے حوالے سے کچھ عرصے سے مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
جمعے کو عدالت میں حاضری کے بعد صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہونے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اس ضمن میں انتظام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس ادویات سے بھی بہتر نہیں ہو رہے اور روزانہ کی بنیاد پر پلیٹ لیٹس اوپر جانے کی بجائے نیچے آ رہے ہیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی صحت کافی خراب ہے اور ان کی بیماری کی تشخیص ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ 

نواز شریف کے علاج کے لیے شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ بیرون ملک جائیں گے، فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ سیاست پوری زندگی چلتی رہتی ہے لیکن والدین دوبارہ نہیں ملتے۔ 
نواز شریف اگر علاج کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں تو کیا آپ(مریم نواز) بھی ساتھ جاتی ہیں؟
اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ میں ابھی فوری سفر نہیں کر سکتی کیونکہ میرا پاسپورٹ عدالت کے پاس ہے۔
’یہ بڑا مشکل ہے کہ میاں صاحب علاج کے لیے باہر چلے جائیں اور میں نہ جا سکوں۔ یہ میرے لیے بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ ان کے بارے میں بڑی فکر اور تشویش ہوتی ہے لیکن میاں صاحب کو زندگی کا مسئلہ ہے اور صحت تشویشناک ہے تو انھیں دنیا میں جہاں بھی علاج ممکن ہے وہاں سے کرانا چاہیے۔‘
مسلم لیگ کی رہنما نے کہا کہ وہ دن رات نواز شریف کی تیمارداری کے فرائض نبھا رہی ہیں اور وہ بڑی مشکل سے آج عدالت میں پیش ہوئیں۔

عدالت کے علاوہ وفاقی کابینہ کسی کا نام ’ای سی ایل‘ سے نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے، فوٹو: اے پی پی

نواز شریف کی صحت پر سیاست نہیں کی جائے گی، حکومتی ترجمان

دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت پہلے ہی واضح چکی ہے کہ نواز شریف کے بیرون ملک علاج کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
جمعے کو اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ’نواز شریف کی ضمانت طبی بنیادوں پر ہوئی ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی بیرون ملک جانے کے لیے درخواست پر وزارت داخلہ نے نیب سے رائے مانگی ہے کیونکہ نیب بھی ایک مدعی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری میڈیکل بورڈ سے بھی رائے مانگی گئی ہے۔‘
’سیاست اپنی جگہ انسانی ہمدردی اپنی جگہ، نواز شریف کی صحت کے حوالے سے کوئی سیاست نہیں کی جائے گی۔ ’بیمار نواز شریف سے ہم کوئی پنجہ آزمائی نہیں کریں گے۔‘

ای سی ایل سے نام ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟


وفاقی وزیر داخلہ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں، فوٹو: پی آئی ڈی

ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں کسی کا نام شامل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ وفاقی حکومت یا عدالت کر سکتی ہے۔ عدالت کے احکامات کے علاوہ وفاقی کابینہ کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وزارت داخلہ کو کسی بھی ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے یا ہٹانے کی ہدایت کرے۔
اسلام آباد سے اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے وزارت داخلہ اس حوالے سے سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کرے گی اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت داخلہ سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے ہٹا سکے گی۔
 فوری نوعیت کا معاملہ ہونے کی صورت میں کابینہ اجلاس کا انتظار کیے بغیر بذریعہ سرکلر سمری بھی اس فیصلے کی منظوری لی جا سکتی ہے۔ سرکلر سمری متعلقہ وزارت کی جانب سے کسی بھی دن کابینہ ارکان کو ارسال کی جاتی ہے جس کے 24 گھنٹوں کے اندر جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں بھی سمری منظور تصور کی جاتی ہے۔

شیئر: