18 برس کی عمر بین الاقوامی معاہدوں اورسعودی قوانین کے عین مطابق ہے۔
سعودی ہیومن رائٹس کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ شادی کی عمر 18 برس مقرر کی جائے۔ اس سے قبل لڑکے یا لڑکی کو شادی کی اجازت نہ دی جائے۔
اخبار 24 کے مطابق انسانی حقوق کے ادارے نے واضح کیا ہے کہ شادی کے لیے 18 برس کی عمر حقوق اطفال سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں اور سعودی عرب کے قوانین کے عین مطابق ہے۔
سعودی عرب تحفظ اطفال کے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کئے ہوئے ہے۔ ان میں تاکید کی گئی ہے کہ بچہ وہ ہے جس کی عمر 18برس سے زیادہ نہ ہو۔
والدین 18 برس تک اپنے بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کریں۔
سعودی ہیومن رائٹس کمیشن نے توجہ دلائی کہ 18برس سے کم عمر کی شادی کے کیا کچھ نقصانات ہوں گے اس حوالے سے کمیشن نے متعدد اداروں کے ساتھ مل کر حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا کہ تحفظ اطفال قانون کے بموجب والدین پر یہ پابندی عائد کردی گئی ہے کہ وہ 18 برس تک اپنے بچوں کی نگہداشت، تربیت اور دیکھ بھال کریں۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ انہیں ضروری سہولتیں مہیا کریں اور انہیں کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف یا لاپروائی سے بچائیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق 18برس سے کم عمر کی شادی پر پابندی کی قانون سازی ضروری ہے
ہیومن رائٹس کمیشن نے زو ر دیا کہ 18برس سے کم عمر کی شادی پر پابندی کی قانون سازی ضروری ہے۔ایسا کرکے ہی خاندان بنانے سے متعلق اولاد کے حقو ق کو تحفظ مل سکے گا۔18برس کے لڑکے ہی رشتہ زوجیت کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں اور چین و سکون کے ساتھ فرائض زوجیت انجام دے سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق معتبر مطالعات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کم عمری کی شادی سے جسمانی و ذہنی نقصانات ہوتے ہیں۔شادی اسی وقت بہتر ہوتی ہے جب دولہا اور دلہن دونوں جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل ہوچکے ہوں۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں شادی لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے وبال بن سکتی ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں