کالم نگار کہتے ہیں جیل کو جنت بنانے والے قیدی اور ہیں۔ بھلے وہ کسی بھی گھناؤنے جرم میں تشریف لائے ہوں۔ فوٹو: اے ایف پی
ان دنوں یہ بحث پھر گرم ہے کہ پاکستان میں ایک ہی قانون دو طرح سے استعمال ہوتا ہے۔ کمزور پر الگ طریقے سے اور طاقتور اسی قانون کو موم کی ناک بنا لیتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کی ذمہ دار مقننہ ہے کہ عدلیہ۔ کوئی اس گرم آلو سے اپنی ہتھیلی نہیں جلانا چاہتا اور فوراً دوسرے کی جانب پھینک دیتا ہے۔
جن کا کام قانون سازی ہے وہ باہر سے تو حزبِ اقتدار ہیں مگر اندر سے حزبِ اختلاف۔ اور جن کا کام قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے وہ قانون سازی نہیں کر سکتے لہذا جیسے بھی اچھے برے، کچے پکے، نئے پرانے قوانین ہیں انہی کے ملغوبے میں سے کبھی مثالی فیصلے نکل آتے ہیں تو کبھی ایسے فیصلے کہ خود قانون کے طلبا بھی انگشتِ بدنداں ہو کر سر کھجانے لگیں۔ اس اذیت ناک فلم میں جیل بھی ایک بنیادی کردار ہے۔
جیل اصلاحات مقننہ کا کام ہے کہ عدلیہ کا۔ جس کا بھی ہے مگر حال برا ہے ۔ مسئلہ صرف گنجائش سے زیادہ قیدیوں یا معمولی قابلِ ضمانت جرائم میں قید لوگوں کی کسمسپرسی یا لیگل ایڈ کی دستیابی و عدم دستیابی سے کہیں بڑا ہے۔
ہم شریفوں اور سادہ دلوں کو متواتر بتایا جاتا ہے کہ جیل میں انگریز کے زمانے کا ایک عدد تحریری ضابطہِ کار (مینوئل) ہوتا ہے۔ اس مینوئل کا نہ تو عملہ خلاف ورزی کر سکتا ہے اور کوئی قیدی کوشش کرے تو اسے طرح طرح کی سزاؤں سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ دیگر اسیروں کو کان رہیں اور یہی کان جیل عملے کی ہدایات پر دھرتے رہیں۔
جیل قیدِ تنہائی، ہتھکڑی، بیڑی، ناقص خوراک، تشدد، بیماری، نشے اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی عقوبت ناک دنیا سمجھی جاتی ہے۔ کسی اخلاقی جرم میں جیل کی ہوا کھانا نہ صرف مجرم بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی کلنک کا سماجی ٹیکہ ہے۔
کروڑوں دیگر کی طرح میرا بھی اب تک کا جیل تجربہ پنجابی فلموں کی مشاہداتی دین ہے۔ ہزار بار فلمائی گئی ایک خوفناک قیدی اور سفاک جیلر کی کہانی۔ قیدی پٹتا ہے مگر ٹوٹتا نہیں جیلر پیٹتا ہے مگر جھکتا نہیں۔ لیکن جدید جیل کا ان قصے کہانیوں سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ آج کی جیل میں مجرم جیلر اور جیلر قیدی اور پیسہ جیل مینوئل ہے۔
پنجابی فلموں میں تو خطرناک قیدی کو مزید وحشت ناک دکھانے اور جیل کے اندر اور عدالت میں سناٹا پیدا کرنے کے لیے مفت میں بیڑی ڈال دی جاتی تھی۔ مگر آج کی جیل میں بیڑی ہر ایرا غیرا نہیں پہن سکتا۔ یہ سزا نہیں زیور ہے۔
اس کے پیسے لگتے ہیں۔ آپ چاہیں تو سٹیل، چاندی حتیٰ کہ سونے کی ذاتی بیڑی بنوا کر اس میں اپنی مرضی کی چھن چھن چھن سنوانے کے لیے آہنی جھالر ڈلوا سکتے ہیں۔ سنہ 2019 کی جیل میں بیڑی سزا تھوڑی ہے دھاک بٹھانے کا طریقہ اور سٹیٹس سمبل ہے۔
ادنیٰ طبقات جیل سے باہر بھی دھتکارے ہوئے نیم کتے ہیں اور جرم کر کے جیل آ جائیں تو وہاں بھرپور کتے ہیں۔ ان قیدیوں پر نہ صرف جیل کا ادنیٰ سپاہی بلکہ ذرا سا بھی طاقتور قیدی سواری گانٹھ سکتا ہے، غلام بنا سکتا ہے اور بندر کی طرح سدھا سکتا ہے۔
ان راندہ درگاہ انسانوں کو جرم کرنے سے پہلے بھی قانون کا بنیادی تحفظ نہ تھا اور جیل کے اندر بھی ان کی زندگی مینوئل کے بجائے قانونی و غیر قانونی طاقت کی منشا و مرضی کے ضابطہِ کار کے تحت ہے۔ ایسے کمی کمین قیدیوں کو علاوہ سانس ہر شے خریدنا پڑتی ہے۔
ملاقات کے پیسے، گھر سے کبھی کبھار آنے والے کپڑوں اور کھانے کے پیسے، مار سے بچنے کے پیسے، سخت مشقت پر نہ لگائے جانے کے پیسے، پیشی اور پھر عدالت پہنچانے کے پیسے، عدالت میں آواز پڑوانے نہ پڑوانے کے پیسے، ہسپتال میں چیک اپ کے لیے لانے لے جانے کے پیسے۔
ان کے لیے سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ کسی زیادہ بہتر قیدی کے مشقتی بنا دیے جاویں یا پھول پودوں کی دیکھ بھال، سرکاری گاڑیوں کی صفائی یا کچن وغیرہ میں لگا دیے جاویں۔
مگر جیل کو جنت بنانے والے قیدی اور ہیں۔ بھلے وہ کسی بھی گھناؤنے جرم میں تشریف لائے ہوں مگر ان کے لیے جیل مینوئل کی اے بی سی کلاس کے کوئی معنی نہیں۔ جو ان کی اپنی سماجی و سیاسی و معاشی کلاس ہے وہی بیرک کی کلاس ہے۔ کچن، بیڈ روم، ماربلڈ واش روم، ملاقاتیوں کا کمرہ، ایر کنڈیشنڈ، استری شدہ کپڑے، لش پش جوتے، پرفیوم شیمپو، سراؤنڈ ساؤنڈ ڈیک، کراکری، تازہ پھل، پھول، کیک، بوتل، جنس، موبائیل فون سروس، ملاقاتیوں کی آزادانہ آہر جاہر، ان کے لیے باہر سے آنے والی ہر شے اور ہر شخص تلاشی سے مبرا۔ ان کی بیرک ان کا دفتر، گھر، اینکسی، مہمان خانہ سب ہی کچھ ہوتا ہے۔
جیل کے عملے کو کسی بھی طرح کے ملازمتی ، اختیاراتی، یا چھوٹے بڑے گھریلو مسائل درپیش ہوں انہیں یہی عزت مآب فائیو سٹار قیدی سنتے اور حل کرتے یا کرواتے ہیں۔ عید، بقر عید، سالگرہ ، خوشی، غمی پر کھانے، نذرانے، تحفے اپنے لیے بھی، قیدیوں کے لیے بھی اور عملے کے لیے بھی۔ جب دل گھبرایا تو ہوا خوری کر لی۔ طویل آرام کا جی چاہا تو ہسپتال کا پورا وارڈ وقف ہوگیا۔ اب وہاں علاج کروائیے، چاہے محفل سجائیے یا رنگ لگائیے۔ مملکتِ جیل میں جو بھی صاحبِ عالم کی منشا۔
کہا جاتا ہے جو ایک بار جیل والی پولیس میں آ جائے اس کا پھر کسی اور برانچ میں جانے کا من نہیں کرتا۔ جب ایسے قیدی اور ان کے ایسے رکھوالے ہوں تو کون اس بہشتِ من مانی سے نکلنا چاہے گا۔
بظاہر پاکستان کی کسی بھی جیل کے باہر سے گزریں تو آپ کو اونچی اونچی دیواریں، اوپر سے نیچے تک ریت سے بھرے اضافی بورے، دیواروں پر بنی چوکیوں پر مستعد سنتری نظر آئیں گے۔ صدر دروازے پر مسلح سپاہی کھڑے ہوں گے۔ موبائل جیمرز اتنے طاقتور ہوں گے کہ آس پاس کی آبادیوں میں بھی سگنل نہ آئے۔ مگر جیل کو جنت بنانے والے قیدیوں کے لیے یہ سب حفاظتی انتظامات کسی شاندار فلمی سیٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ تو ان بااثر، صاحبِ وسیلہ خطرناک قیدیوں کی مہربانی ہے کہ اپنی مرضی سے جیل میں رکے ہوئے ہیں۔ نہ رہنا چاہیں تو بھلا کون روک سکتا ہے۔ اور جیل سے خوامخواہ جانے کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہو۔
سرکار کے خرچے اور تحفظ کے سائے میں کون بے وقوف طاقتور مجرم ہو گا جو جیل چھوڑنے کا خطرہ مول لے۔ انکوائری ہوتی بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ اتنی تبدیلی آتی ہے جتنی ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو تبدیل کرنا ممکن ہے۔