کراچی کے گنجان آباد علاقے نارتھ ناظم آباد میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جو پاک و ہند تاریخ کی یاد دلاتی ہے۔ یہ جگہ مولانا حسرت موہانی لائبریری ہے جو 1991 سے لے کر اب تک نا مساعد اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بھی اپنے آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔
اس کو قائم رکھنے میں بہت بڑا کردار مولانا کے خاندان کا ہے جن کی آپ تیسری اور چوتھی نسل اس فرض کو نبھا رہی ہے۔
مولانا کا نام تاریخ ہندوستان میں اٹھنے والی حریت کی تحریکوں میں آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ہی وہ سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ہند میں مکمل آزادی کا نعرہ لگایا۔ حسرت ہی تھے جنہوں نے اشتراکی تحریکوں کو ایک جا لا کر کھڑا کردیا تھا۔
مولانا کے نواسے انعام حسن موہانی کا کہنا ہے کہ ان کی عمر 83 سال ہوچکی ہے لیکن اب بھی وہ پورے حوصلے کے ساتھ اس کتب خانے کو چلانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں حالانکہ ان کو اس کام سے کسی قسم کے معاوضہ کی توقع نہیں ہے۔
ان کی ٹرسٹ نے کئی گراں قدر کتابیں شائع کروائی ہیں تاکہ ان کے ادبی، سیاسی و صحافتی سرمایہ کو آنے والی نسلوں کے لیے سنبھال کر رکھا جائے۔
ہزاروں کتابوں سے سجا یہ کتب خانہ اپنی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں کے لائبریرین پچھلے 30 سال سے اس کی ٹرسٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگ ان سے اکثر پوچھا کرتے ہیں کہ آخر مولانا کے نام سے یہ کتب خانہ ہی کیوں بنایا گیا۔ اگر کوئی ہسپتال یا سکول بنایا جاتا تو اچھا رہتا اور مال و اسباب بھی مزید اکھٹا ہوجاتا۔
اس سوال کا لائبریرین اصغر کاظمی صاحب بہت خوب جواب دیتے ہیں۔
’میرا جواب اس کے لیے جو کل تھا آج بھی وہ ہی ہے کہ ہم نے حسرت موہانی کتب خانہ اس لیے قائم کیا کہ حسرت موہانی کو جب پہلی دفعہ قیدِ با مشقت کی سزا دی گئی تھی تو حسرت کے پاس ایک نہایت ہی نادر اور نایاب کتب خانہ حسرت نے اپنے گھر میں بنایا ہوا تھا۔ حسرت سادہ آدمی تھے۔ سفید پوش آدمی تھے لیکن جب بھی ان کو اچھی کتاب دکھائی دیتے وہ اس کو فوراً خرید لیتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حسرت سے اگر یہ کہا جاتا کہ آپ کو عمدہ لباس دے دیں کسی اچھے سے ہوٹل میں آپ کو کھانا کھلا دیں وہ آپ کو منظور ہے یا آپ کو کوئی کتاب دے دیں۔ تو حسرت کی پہلی ترجیح جو ہوتی وہ کتاب ہوتی۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ جب ان سے ضمانت طلب کی گئی تو حسرت کے پاس ضمانت کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ’لہذآ ان کے نادر اور نایاب کتب خانے کو ٹھیلوں پر لاد کر لے جایا گیا اور صرف ساٹھ روپے میں وہ کتابیں بیچ دی گئیئں۔ حسرت آزاد ہو کر جب آئے تو انہیں سب سے زیادہ اس بات کا دکھ تھا کہ میں نے ایک ایک کتاب کتنی محنت سے جمع کی تھی تو آج اس کو کتنی بے دردی سے ختم کردیا گیا۔
حسرت کا یہ درد ان کے خاندان والوں نے محسوس کیا اور بجائے ہسپتال بنانے کے بجائے کوئی سکول بنانے کے پہلی اور آکری ترجیح یہ تھی کہ حسرت کے اس قدم کو قائم رکھا جائے اور یوں کتب خانے کی بنیاد رکھی گئی۔‘
مولانا کے نواسے کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے یہ ہیں ’ان کا جو نام ہے، ان کی شخصیت تھی ہند و پاک کی بلکہ بین الاقوامی انکا نام اگر باقی رکھنے کے لیے تو ہم اس کو اور آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم کو سرمایہ ملے گا تا ہم اس کو اور بڑھا دیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے پانچ سال سے ان کی ٹرسٹ کے لیے مختص کیا گیا فنڈ کا پیسہ نہیں ملا ہے لیکن وہ جیسے تیسے کر کے اس شمع کو جلائے رکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی اور بلدیاتی حکومتوں میں چپقلشوں کے سبب ایسا ہوا ہے جس کے لیے انہوں نے کئی جگہ رابطے بھی کیے ہیں۔