Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کھٹولے‘ سے الیکٹرانک چیئر تک 

مسجد الحرام کی انتظامیہ کے پاس دس ہزار سے زائد ویل چیئرز ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
ایک عشرے قبل بوڑھے، معذور اور مریض خانہ کعبہ کا طواف کھٹولے پر کیا کرتے تھے۔ مضبوط ڈیل ڈول والے افراد کھٹولے پر بزرگوں اور معذوروں کو طواف کرواتے تھے۔ 
اس کھٹولے کو ’الشبریہ‘ کہا جاتا تھا جس کی جگہ اب الیکٹرانک چیئرز نے لے لی ہے۔
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کی انتظامیہ کے پاس دس ہزار سے زائد ویل چیئرز موجود ہیں۔
کم از کم تین مقامات پر ضرورت مندوں کو ویل چیئرز طواف اور سعی کے لیے فراہم کی جاتی ہیں۔ 

طواف کرانے والے کھٹولے کو اپنے سر پر لادے رکھتے تھے۔ فائل فوٹو: العربیہ

بعض تاریخی کتابوں میں تحریر ہے کہ اہل مکہ سو برس سے زیادہ کےعرصے سے ’الشبریہ‘ سے واقف ہیں۔
حجاز کی تاریخ کے ماہر اسماعیل البرکاتی کا کہنا ہے کہ طواف کرانے والے کھٹولے کو اپنے سر پر لادے رکھتے تھے۔
’کھٹولوں پر سرخ یا سبز رنگ کی کاٹن یا ریشمی چادر ڈالی جاتی تھی۔ صحت مند اور ڈیل ڈول کے حساب سے مضبوط چار افراد کھٹولہ چلاتے تھے۔‘
العربیہ نیٹ کے مطابق ’الشبریہ‘ پر طواف کرانے والے راستہ چھوڑنے اور طواف کرنے والوں کو کھٹولے کی لکڑی کی ضرب سے بچانے کے لیے ’خشب خشب‘ کہا کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہوتا تھا کہ لکڑی والے کھٹولے کو آگے بڑھنے کے لیے راستہ دیں۔

کھٹولہ انڈونیشیا کی مضبوط لکڑی سے تیار کیاجاتا تھا۔ فائل فوٹو: العربیہ

’خشب‘ کے معنی لکڑی کے ہیں اور کھٹولہ لکڑی کا بنا ہوتا تھا جو انڈونیشیا کی لکڑی سے تیار کیا جاتا تھا۔
انڈونیشیا کی لکڑی وزن اور حجم کے حوالے سے عمدہ اور مضبوط مانی جاتی تھی۔
رفتہ رفتہ ’الشبریہ‘ کا رواج ختم ہوتا چلا گیا اور اب ان کی جگہ ویل اور الیکڑانک چیئرز نے لے لی ہے۔ 
مسجد الحرام میں 15 سے زیادہ مقامات پر ویل چیئرز چلانے والے موجود ہوتے ہیں جن کے پاس ویل چیئرز کے اجازت نامے ہیں۔
صفا اور مروہ کی پہلی منزل پر 775 الیکٹرانک ویل چیئرز موجود ہیں۔

شیئر: