سارا بکھیڑا ہزارہ موٹروے کی افتتاحی تقریب میں وزیرِ اعظم کی تقریر سے شروع ہوا جب بڑے میاں صاحب کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک بھیجنے کے سرکاری فیصلے کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ضمانت پر تھوڑی سی تبدیلی کے بعد توثیق ہو گئی اور پھر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی یوتھ فورس نے ’کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘ جیسے طعنوں کے تکلے اپنے ہی خان صاحب کو تاک تاک کے مارنا شروع کر دیے۔
چنانچہ ’ ڈِگیا کھوتی تُوں تے غصہ کمہیار تے‘ کے مصداق وزیرِ اعظم خان نے عدلیہ سے طیش بھری اپیل کر ڈالی کہ خدا کے واسطے موجودہ اور آنے والے چیف جسٹس کمزور کے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ انصافی معیارات کا تاثر ختم کرنے کی کوشش کریں۔
مزید پڑھیں
-
وسعت اللہ خان کا کالم: زخم کھاتے ہیں زہر اگلتے ہیںNode ID: 426061
-
وسعت اللہ خان کا کالم: میری فریاد ماری جا رہی ہےNode ID: 426881
-
وسعت اللہ خان کا کالم: تہذیب کی درفنتنی!Node ID: 438531
یہ بات غالباً چیف جسٹس کھوسہ کے دل کو لگی اور انہوں نے وزیرِ اعظم کی درد مندانہ فرمائش پر آمنا و صدقنا کرتے ہوئے ایک تقریب میں خطاب کے دوران کھلم کھلا فرمایا کہ عدلیہ کا پیمانہِ انصاف طاقت یا کمزوری نہیں بلکہ قانون کا ترازو ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو گذشتہ چند برسوں میں دو وزرائے اعظم گھر نہ جاتے اور اگلے چند دنوں میں ایک سابق فوجی جنرل کے بارے میں بھی فیصلہ آنے والا ہے۔
اور پھر فیصلہ آ گیا۔ توقع تھی کہ خان صاحب طاقتور اور کمزور کو ایک آنکھ سے دیکھنے والے انصاف کی اس تاریخی مثال کا سب سے پہلے خیر مقدم کریں گے مگر یہ کیا ؟ سرکاری اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ یہ فیصلہ تو ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے سے بھی زیادہ ناقص ہے اور اب پرویز مشرف کی جانب سے اعلیٰ عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل میں خود لڑوں گا۔
ہم نے تو سنا تھا کہ اٹارنی جنرل صرف سرکار پر ہونے والے مقدمات میں بطور اعلیٰ وکیل اپنا فرض نبھاتا ہے مگر پہلی بار شاید ایسا ہو رہا ہے کہ ایک عام ریٹائرڈ شہری کے مقدمے میں معاونت کی ریاست کے اعلیٰ ترین وکیل کی جانب سے جذباتی پیش کش آئی ہے۔حالانکہ خود پرویز مشرف بھی صاحبِ حیثیت ہیں اور ان کے دفاعی پینل میں ایک سے ایک ماہر وکیل شامل ہے۔

اسی پینل کی کوششوں سے وہ مقدمہِ غداری جو باقاعدگی سے چلتا تو اب سے پانچ برس پہلے چھ ماہ کے اندر ہی مکمل ہو جاتا مگر اسے پرویز مشرف کے قانونی پینل کی جانب سے طرح طرح کے درخواستی سپیڈ بریکرز کے ذریعے جس قدر طول دیا جا سکتا تھا دیا گیا۔
آخری بھرپور مدد سرکار نے اپنا استغاثائی پینل عین فیصلے سے ایک روز پہلے توڑ کر کی مگر خصوصی عدالت اس جھانسے میں نہ آئی اور پرویز مشرف کو صفائی کا آخری موقع دینے کی حجت تمام کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔
خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل اور اس بابت اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس میں دائر پٹیشنوں کے ذریعے اس فیصلے کو تکنیکی طور پر متنازعہ بنانے کے لیے ابھی مشرف پینل کے پاس قانونی موشگافیوں اور اڑچنوں کا نہ صرف ذخیرہ موجود ہے بلکہ سرکار کی بھی بھرپور حمایت و مدد حاصل ہے۔

چنانچہ پرویز مشرف کے سابق ادارے کو اس بابت ایسا دھڑم دھکیل ردِعمل دینے کی ضرورت نہیں تھی جس کے سبب یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے دو ریاستی ادارے کھلم کھلا ایک دوسرے کے مدِمقابل آ چکے ہیں۔اگر یہ تاثر درست نہ بھی ہو تب بھی آئی ایس پی آر کے شدید ردِعمل سے بین الاقوامی سطح پر یہی پیغام گیا ہو گا کہ ریاستِ پاکستان کے اندر محاز آرائی کی فضا کھلم کھلا ہے اور سرکار کی حالات و واقعات پر پوری گرفت نہیں۔
حیرت اس لیے بھی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے پرویز مشرف جو بھی بیانات دیتے آئے ہیں یا دعوے کرتے رہے ہیں ان کے بارے میں فوجی قیادت کا یہی موقف رہا ہے کہ یہ پرویز مشرف کے ذاتی خیالات ہیں اور ان دعوؤں کا ادارے یا اس کی موجودہ پالیسی سے کوئی لینا دینا۔مگر خصوصی عدالت کے فیصلے پر جس طرح آئی ایس پی آر کا براہ راست ردِ عمل سامنے آیا اس کے بعد سے یہ حد بندی بظاہر ختم ہو گئی ہے کہ کس مقام تک پرویز مشرف کی حیثیت ایک عام پاکستانی شہری کی ہے اور کس حد کے بعد ان کے بارے میں کوئی عدالتی فیصلہ فوج کو بحیثیت ادارہ بے چین کر سکتا ہے۔
