Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رانا ثنااللہ کی ضمانت منظور

عدالت نے 10/10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوظ رانا ثنااللہ کی درخواست منظور کی ہے۔ فائل فوٹو
لاہور ہائی کورٹ نے منشیات سمگلنگ کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن ) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے دس ،دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
منگل کو لاہورہائی کورٹ کے جسٹس چودھری مشتاق احمد نے رانا ثناءاللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ہائی کا حکم دے دیا ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن ) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو رواں سال جولائی میں انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے لاہور جاتے ہوئے سکھیکی انٹرچینج کے قریب موٹر وے سے گرفتار کیا تھا۔
کورٹ میں رانا ثنا اللہ کی جانب سے ایڈووکیٹ زاہد حسین بخاری، احسن بھون اور اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے۔ اس موقع پر رانا ثنااللہ کی اہلیہ اور داماد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
رانا ثنا اللہ کے وکیل زاہد حسین بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ راناثنا اللہ کے خلاف منشیات سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا، واقعے کی ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمہ کو مشکوک ثابت کرتی ہے، ایف آئی آر میں21 کلو گرام ہیروئن سمگلنگ کا لکھا گیا جبکہ بعد میں اسکا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ راناثنا اللہ کی گرفتاری سے قبل ہی گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا گیا تھا۔
زاہد حسین بخاری نے کہا کہ کہ رانا ثنااللہ کو بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی، لہذا منشیات سمگلنگ کے مقدمہ میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

عدالت میں رانا ثنا اللہ کی جانب سے ایڈووکیٹ زاہد حسین بخاری، احسن بھون اور اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیے (فوٹو:اے ایف پی)

پراسکیوٹر اے این ایف نے عدالت کو بتایا کہ  منشیات برآمدگی ازخود ایک جرم ہے اور رانا ثناء اللہ  کے قبضے سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اسی وجہ سے دوسرے ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی موقع سے گرفتار ساتھی ملزموں کو بھی نامزد نہیں کیا گیا۔
جسٹس چوہدری مشتاق نے استفسار کیا کہ رانا ثنا اللہ کے کیس میں کتنے گواہ ہیں؟
اے این ایف وکیل نے بتایاکہ کل 6 افراد گواہ ہیں جن میں مدعی، ریکوری میمو بنانے والا اور دیگر لوگ شامل ہیں، رانا ثناء اللہ کا جرم ناقابل ضمانت ہے، اینٹی نارکوٹکس قانون کے مطابق 9 سی کے مقدمہ میں موت کی سزا ہے۔
احسن بھون ایڈووکیٹ نے کورٹ کو بتایا کہ پراسکیوشن نے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا کہ رانا ثنا اللہ سے منشیات برآمد ہوئی ہیں۔
جبکہ اے این ایف وکیل کا کہنا تھا کہ منشیات کے کیمیکل کی تجزیاتی رپورٹ آ چکی ہے اور اگر انہیں ڈائریکشن مل جائیں تو اے این ایف ایک ماہ میں مقدمہ کا ٹرائل مکمل کر لی گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر رانا ثناء اللہ بے قصور ہوئے تو ٹرائل میں بری ہو جائیں گے۔
 عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ ایف آئی آر میں اے این ایف نے مؤقف اپنایا تھا کہ مخبر کے ذریعے ملنے والی اطلاع کے مطابق رانا ثنا اللہ بڑی مقدار میں منشیات چھپا کر لاہور لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
 

اگست 2019 میں لاہور کی انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد نے رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت روک دی تھی (فوٹو:سوشل میڈیا)

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ جب رانا ثنااللہ کی گاڑی کو روکا گیا اور ان سے منشیات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی سیٹ کے پیچھے رکھے نیلے رنگ کے سوٹ کیس میں ہیروئن کی موجودگی تسلیم کرکے سوٹ کیس کی زپ کھول کر منشیات کی نشاندہی کی تھی۔ 
رانا ثناءاللہ کی گرفتاری سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی ہے اور ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام سے منسوب کیا جاتا رہا۔
اگست 2019 میں لاہور کی انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد نے رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت روک دی تھی۔ جج کا کہنا تھا کہ انہیں واٹس ایپ پر ہدایت ملی ہے کہ وہ کام چھوڑ دیں۔
عدالت میں موجود رانا ثناء اللہ کے وکیل راجہ ذوالقرنین نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے این ایف اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکتا اس لیےحیلے بہانے کیے جا رہے ہیں۔
جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ ’میں اللہ کو جواب دہ ہوں ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیےکام کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ یا کسی کا بھی مقدمہ ہو فیصلہ میرٹ پر ہونا تھا۔‘

شیئر: