سوشل میڈیا صارفین کی حس مزاح جہاں بہت سے واقعات کو دلچسپ بنا کر پیش کرتی ہے وہیں اکثر ایسے ٹرینڈز اور موضوع بھی زیر بحث آ جاتے ہیں جن کے بارے میں شاید اب بھی کھل کر بات کرنا اتنا آسان نہیں۔
جیسے مذہبی تعصبات کی وجہ سے کسی کے ساتھ کھانا نہ کھانا، کسی پیشے کو کسی خاص طبقے کے لوگوں سے ہی منسلک کرنا وغیرہ وغیرہ۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ دنوں سے ایک نجی سکول کی جانب سے جاری کیا گیا ایک اشتہار آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
مزید پڑھیں
-
تنخواہ ملتی ہے نہ عید ی ملتی ہے،مسیحی ملازمینNode ID: 415646
-
اسلام آباد میں خاکروب کا احتجاج کیوں؟Node ID: 449621
صفائی کے لیے کرسچن (عیسائی) لڑکے کی ضرورت ہے۔ صفائی کرنے والوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹ سویپر سپر ہیروز نے اس اشتہار کی تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ صفائی کا کام کرنے میں کوئی عار نہیں لیکن اسے کسی ایک مذہبی طبقے سے جوڑنا دین اسلام اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
صفائی مسلمانوں کےلئے نصف ایمان ہے لیکن اس کی تکمیل صرف اہل کتاب کے ہاتھوں ہی ممکن ہے۔
صفائی کا کام کرنے میں کوئی عار نہیں لیکن اسے کسی ایک مذہبی طبقے سے جوڑنا دین اسلام اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔#صفائی_سب_کا__ایمان_ہے pic.twitter.com/PVFXo5K43a
— Sweepers Are Superheroes (@sewperheroes) December 26, 2019
نوید کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم نے خاص طبقے کو اس صفائی والے پیشے سے جوڑ کر ایک تعصب پیدا کر دیا ہے۔
ٹوئٹر صارف ملک اصغر کا کہنا تھا ’بھائی یہ حقیقت ہے ہمارے معاشرے کی کوئی مانے یا نہ مانے ہم میں 90 فیصد افراد ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا بھی پسند نہیں کرتے۔‘
سوشل میڈیا پر ہر قسم کی بات کی جا سکتی ہے اور ہر نسل اور رنگ کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا پر باتیں کرنے والوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ جو بھی بات کر رہے ہیں اس کے لیے انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے اور اگر کسی کو اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات ہیں تو انہیں للت مودی بنام کرس کئیرنز کیس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں للت مودی کو نوے ہزار پاؤنڈ سے زیادہ جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا تھا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور اگر آپ ٹوئٹر پر کوئی بات لکھتے ہیں تو فیس بک آپ کو سہولت دیتا ہے کہ آپ اسے فیس بک کی اپنی پروفائل پر بھی دکھا سکیں۔
سوشل میڈیا پر یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ دوسری طرف مشہور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کی جانب سے کیا جانے والا دعویٰ بھی سامنے آگیا کہ ان کے ٹیم کے ساتھی دانش کنیریا کو بعض پاکستانی کرکٹرز کے تعصب کا سامنا کرنا پڑا، جو ان کے ساتھ کھانا کھانے سے گریز کرتے تھے کیونکہ ان کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔
شعیب اختر نے اس کا انکشاف پی ٹی وی سپورٹس پر نشر کردہ شو ’گیم آن ہے‘ کے دوران کیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ اپنے کیریئر میں انہوں نے دو تین کھلاڑیوں سے لڑائی کی کیونکہ وہ ہندو ساتھی کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا کرتے تھے۔
I’m really impressed with @shoaib100mph here. Discrimination, religious or racial, doesn’t help teams win, or let’s countries progress.
Your faith or race does not make you superior. It’s your actions and characters that do...
— Khurram Qureshi (@qureshik74) December 27, 2019
کرکٹر کنیریا نے بھی شعیب اختر کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ کنیریا پاکستان کے لیے کھیلنے والے صرف دوسرے ہندو کھلاڑی رہے جبکہ ان کے ماموں انیل دلپت پہلے کھلاڑی تھے۔
Whatever @shoaib100mph said in his interview is true. But at the same time, i am thankful to all great players who supported me wholeheartedly as a cricketer. I personally request all not to politicise the issue. Here is my statement: pic.twitter.com/8vN3Kilm4W