خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جن لوگوں کو پہلے پانچ سے چھ انچ کی لاٹھی سے مار پڑ چکی ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک یا بانس کی موٹی چھٹری ہوتی ہے جس کے پڑنے سے جسم کا حصہ کچھ دنوں کے لیے سن ہو جاتا ہے۔
متعدد بار کسی جگہ پر لاٹھی لگنے سے ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں، متاثرہ شخص معذور یا مر بھی سکتا ہے۔
انڈیا میں انسانی حقوق کی ایک تنطیم پیپلز یونین فور سول لیبرٹیز کے سیکرٹری جنرل وی سریش کا کہنا تھا کہ پہلے لاٹھی ہجوم کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن اب یہ ایک جان لیوہ ہتھیار بن چکی ہے۔
’اس کا اتنا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے کہ ہم اب اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ لاٹھی کو ایک عام لیکن بھیانک ہتھیار کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔‘
لوگوں کا ماننا ہے کہ لاٹھی کا استعمال جنوبی ایشیا میں مارشل آرٹس کے لوازمات کے طور پر ہوا۔ زمیندار غریب کسانوں پر بھی لاٹھی کا استعمال کرتے تھے۔ اس طرح یہ طاقت اور اقتدار کی اعلامت کے طور پر ابھری۔
انڈیا میں نو آبادیاتی دور میں انگریز اسے مظاہرین کو منتشر کرنے اور انیسویں اور بیسویں صدی میں تحریکِ آزادی کے دنوں میں استعمال کرتے تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر سید علی کازمی کے مطابق، ’لاٹھی برطونونی نو آبادیاتی حکمرانی کی میراث ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ انگریزوں کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران انقلابی لیڈر لالا لاجپت رائے بھی سر پر لاٹھی پڑنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
انگریز تو 1947 میں چلے گئے لیکن لاٹھی کا استعمال جاری رہا، اور اب یہ صرف سیکورٹی تک محدود نہیں۔
انڈیا کی دائیں بازو کی قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکن اپنی صبح سویرے ہونے والی مشقوں میں لاٹھی کا استعمال کرتے ہیں۔
وی سُریش نے لاٹھی کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ عام چھڑیاں نہیں ہوتیں۔
’بانس کو بھگویا جاتا ہے، پھر اسے سکھا کر اس پر تیل لگایا جاتا ہے۔ لاٹھی کو ایک عمل سے گزارا جاتا ہے تاکہ یہ ایک ہتھیار بنے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لاٹھی کے کنارے پر لوہا یا سٹیل لگایا جاتا ہے، جو انسان کو زخمی کر سکتا ہے یا جان بھی لے سکتا ہے۔‘