یادش بخیر پارسال طلوع ہوا تو ہر طرف تبدیلی کی دھوم تھی۔ کامیابی کے شادیانے بج رہے تھے۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے تھے۔ ایسے میں ان ہنگاموں سے پرے مارگلہ کے دامن میں ایک درویش دیوانِ غالب سینے سے لگائے شعر گنگنا رہا تھا:
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بُتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
سال تمام ہوا تو پیش گو برہمن کا بھرم کُھل چکا تھا۔ بُت بے فیض اور عشاق بد دل ہوچکے تھے۔ قومی معیشت کا پہیہ پیچھے کی طرف دوڑ رہا تھا اور حکومتی کارکردگی کا گراف سرکے بل کھڑے ہر شخص کو بلند ہوتا دکھائی دے رہے تھا۔
مزید پڑھیں
-
کیا میرزا غالب مارکیٹنگ کے گرو تھے؟Node ID: 447156
-
لفظ وکیل سے موسم تک معنی کا سفرNode ID: 449401
-
’پیچھے تو دیکھو‘Node ID: 450161
اب درویش کے سرہانے کلیات فراز اور لب پر شعر ہے:
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
چونکہ معاملہ سیاسی ہوتا جارہا ہے سو اسے اہل سیاست کے سپرد کرتے ہیں اور اس امید کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں کہ نیا سال ملک و قوم کے لیے باعثِ رحمت ہوگا۔ فارسی زبان میں 12 مہینے کی مدت ’سال‘ کہلاتی ہے۔ اسے ہندی کی رعایت سے اردو میں ’برس‘ بھی کہتے ہیں۔ میرزا غالب نے ایک قصیدے میں مغل بادشاہ کوعمرِدراز کی دعا ان الفاظ میں دی تھی:
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
یہ بات دلچسپ ہے کہ اس ’برس‘ کا تعلق ’برسات‘ سے ہے۔ اس کی اصل سنسکرت کا لفظ ’ورسات‘ (वर्षत्) ہے جو حرف ’واؤ‘ کے ’بے‘ سے بدلنے پر ہندی میں ’برسات‘ ہوگیا ہے۔ برسات پاکستان اور انڈیا کا پانچواں موسم ہے جو دو مہینوں (ساون اور بھادوں) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس موسم کو یہاں کی ثقافتی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ذکر دوہوں، دو بیتیوں، گیتوں، نظموں اور نغموں میں عام ملتا ہے۔ برسات کے بیان میں اردو کے پہلے عوامی شاعر نظیراکبر آبادی کی طویل نظم ’برسات کی بہاریں‘ اپنی نظیر آپ ہے۔
یہ ’برسات‘ ہی کا اثر ہے کہ برصغیر میں سال کا شمار ایک موسمِ برسات سے دوسرے موسمِ برسات تک کیا جاتا تھا اور اس کُل مدت کو’برس‘ کہتے تھے۔ اس ’برس‘ سے ایک لفظ ’برس گانٹھ ‘ ہے، جو اردو ترکیب ’سال گرہ‘ کا نہ صرف ہندی مترادف ہے بلکہ لفظ بہ لفظ ترجمہ بھی ہے۔
کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں بچے کی پیدائش یا کسی خاص واقعے پر ایک مخصوص ڈوری میں گانٹھ (گرہ) لگا دی جاتی تھی۔ یہ دوڑی ’رشتہ عمر‘ کہلاتی تھی (واضح رہے کہ ’رشتہ‘ کے لفظی معنی ڈوری کے ہیں) یہ گانٹھ (گرہ) ہر سال لگائی جاتی تھی یوں بچے کی عمر یا واقعے کی مدت شمار کرنے میں آسانی رہتی تھی۔ بعد میں گانٹھ بندی کی سالانہ تقریب کا نام ہی ’برس گانٹھ‘ اور’سال گرہ‘ رکھ دیا گیا۔ میرزاغالب نے ایک موقع پر ’رشتہ عمر‘ اور گانٹھ باندھنے کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے:
یہ دی جو گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صفر کہ افزایش اعداد کرے
اس ڈوری میں سال بہ سال ’گرہ‘ لگانے کے حوالے سے 50 اشعار پر مشتمل میرزا غالب کا ایک خوبصورت قطعہ بھی ہے۔
’برس‘ بمعنی ’سال‘ سے ایک لفظ ’برسی‘ بھی ہے۔ یہ اُس ’رسم فاتحہ‘ کو کہتے ہیں جو مرحوم کے انتقال کے بعد ہر ’برس‘ منائی جاتی ہے یوں اس نسبت سے ’برسی‘ کہلاتی ہے۔
اس ’برس‘ کی ایک صورت ’وَرش‘ بھی ہے۔ جو ظاہر ہے کہ حرف ’بے‘ کے ’واؤ‘ سے اور ’سین‘ کے ’شین‘ سے بدلنے کا نتیجہ ہے۔’ورش‘ کا لفظ بادل، برسات اور موسم برسات کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’وَرش‘ یونانی زبان میں پہنچ کر ’وَروشی‘ (Vrochí) ہوگیا ہے۔ جو ہندوستان اور یونان کے لسانی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
لفظ ’برس‘ کی رعایت سے ہندی اور اردو میں بہت سے محاورے اور ضرب الامثال موجود ہیں۔ بات طول نہ پکڑ جائے اس خوف سے محاوروں اور مثالوں سے صرف نظر کرتے اور آگے بڑھتے ہیں۔
ہمارے ایک مخلص دوست اور جہاں گشت صحافی خلیل ناصر نے پوچھا ہے : ’ کیا اپنے بیٹے کو ’صاحبزادہ‘ کہنا درست ہے؟ جب کہ ’صاحبزادے‘ کا مطلب ’صاحب کا بیٹا‘ ہیں، کیا کہنے والا خود کو ’صاحب‘ کہلوانا چاہتا ہے؟‘
ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ جناب خلیل ناصر نے ہمیں اس لائق سمجھا اور حیرت اس امر پر ہے کہ شدید مصروفیت کے باوجود انہیں لسانی مسائل پر سوچنے کا موقع کیسے مل گیا ہے۔ خیر موضوع پر آتے ہیں۔ ’صاحبزادہ‘ عربی لفظ ’صاحب‘ اور فارسی لفظ ’زادہ‘ سے مل کر بنا ہے۔ اول ان دونوں لفظوں کی گرہ کشائی ہو جائے تو اچھا ہے۔
’صاحب‘ کے لفظی معنی ’ہمیشہ ساتھ رہنے والا‘ ہیں۔ یہ ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ اس کے معنی میں ’ساتھی‘ اور ‘ہمراہی‘ کے علاوہ ’مالک، حاکم اور منتظم‘ بھی شامل ہیں۔ اس رعایت سے حاکم شہر کو ’صاحب البلد‘ اور کسی بھی مقتدر شخص کو ’صاحبِ اختیار‘ کہتے ہیں۔ جناب پیرزادہ قاسم کا شعر ہے:
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
’صاحبِ اختیار‘ ہو آگ لگا دیا کرو
اسی طرح کتاب کے مصنف یا مؤلف کو ’صاحب کتاب‘ اور پیشہ ور کو ’صاحبِ حرفہ‘ کہتے ہیں۔
’صاحب‘ کی جمع ’اصحاب‘ ہے۔ اس کا استعمال عام ہے۔ اسے اصحابِ رسول ،اصحابِ جنت، اصحابِ کہف اور اصحابِ فیل وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔
اسی ’صاحب‘ سے ایک لفظ ’صحابہ‘ ہے، جو ’صاحب‘ کا اسم جنس ہے۔ ’صحابہ‘ کا واحد ’صحابی‘ ہے۔ لفظ ’صحابہ‘ رسول اللہ کے ساتھیوں کے لیے خاص ہے۔ اس کا استعمال ’اصحاب‘ کی طرح عام نہیں ہے۔
اردو زبان نے اپنے اصول جمع کے مطابق اس صاحب کی جمع ’صاحبوں‘ بنالی ہے۔ دیکھیں مظفر حنفی کیا کہہ رہے ہیں:
صاحبو بات دسترس کی تھی
ایک جگنو تھا اک ستارا تھا
چوں کہ ’صاحب‘ کے معنی میں اقتدار اور اختیار شامل ہے اس رعایت سے عزت و توقیر بھی اس معنی میں شامل ہوگئے ہیں۔ یوں سرکاری افسر یا مالدار شخص کو بھی ’صاحب‘ کہتے ہیں۔
جہاں تک ’زادہ‘ کا تعلق ہے تو اس کا مطلب ہے ’پیدا کیا ہوا‘۔ یوں ’صاحب زادہ‘ کے معنی ہوئے ’صاحب کا پیدا کیا ہوا‘ یعنی صاحب کا بیٹا۔
بہت سے الفاظ اپنے لفظی معنی سے زیادہ اصطلاحی معنی میں برتے جاتے ہیں یہی کچھ لفظ ’صاحبزادہ‘ کے ساتھ بھی ہوا اور اس کے معنی ہی ’بیٹا‘ ہو گئے ہیں۔ دلی کے ’شکیل جمالی‘ نے اسے ایک شعر میں خوب برتا ہے :
صاحبزادہ پچھلی رات سے غائب ہے
گھر کے اندر رشتے والے بیٹھے ہیں
’صاحبزادہ‘ کے علاوہ لفظ ’زادہ‘ دیگر نسبتوں کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔ جیسے سید زادہ، شہزادہ اور نواب زادہ وغیرہ۔ ان ’زادوں‘ کی فہرست میں ایک ’امیرزادہ‘ بھی ہے جو طویل سفر کے بعد ’مرزا‘ ہو گیا ہے۔ تاہم اس کی ایک صورت ’میرزا‘ بھی ہے جو ’مرزا‘ کے مقابلے میں درست تر ہے۔ اس حوالے سے میرزا غالب کا شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں