سلطان راہی ان اداکاروں میں سے نہ تھے جو آئے اور چھا گئے۔
فلم انڈسٹری میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد انہوں نے بہت کشت اٹھائے۔ راولپنڈی سے والد کی ناراضی مول لے کر لاہور قسمت آزمانے آئے جہاں خاصے غیر موافق حالات میں زندگی گزارنا پڑی۔
والدین سے ملنے پنڈی جاتے تو والد ان سے اپنا شوق جسے وہ شوقِ فضول گردانتے، ترک کر کے کسی جگہ نوکری کرنے کو کہتے، پر وہ راضی نہ ہوتے۔
مزید پڑھیں
-
مادھوری، بہار بیگم کے کردار میںNode ID: 403066
-
لاہوری ادب، حیدر آبادی بریانی اور ممبئی کی فلمیںNode ID: 441276
-
’پاکستانی فلمیں سعودی عرب میں دکھائی جائیں‘Node ID: 445306
انہیں اپنے دن پھرنے کا یقین تھا۔ 1955میں ایک سٹیج ڈرامے سے کیریئر کا آغاز کیا۔ موقعے کی تلاش میں فلم سٹوڈیوز کے چکر لگاتے رہے جس سے چھوٹے موٹے کردار ملنے کی راہ ہموار ہوئی۔
’باغی‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر اور نامور براڈ کاسٹر عارف وقار نے سکول کے زمانے میں اوپن ایئرتھیٹر میں سلطان راہی کو ایک ڈرامے میں اداکاری کرتے دیکھا تھا۔
ان کے بقول ’سلطان راہی کو اردو کی اس ڈرائنگ روم کامیڈی میں دیکھنے کے بعد کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ درست شین قاف کے ساتھ ایسی نستعلیق زبان بولنے والا یہ نوجوان ایک روز خون آلود گنڈاسوں اور گولیاں اگلتی کلاشنکوفوں والی جدال وقتال سے بھرپور پنجابی فلموں کا سپر سٹار بنے گا۔‘
ساٹھ کی دھائی کے دوران سلطان راہی فلموں میں کام کرتے رہے لیکن انہیں انڈسٹری میں کوئی خاص مقام نہ مل سکا۔ اس سفر میں ان کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی۔ ایک معروف پروڈیوسر نے یہ تک کہہ دیا کہ ’تم اداکار نہیں بن سکتے‘ یہ سن کر سلطان راہی کا دل ٹوٹ گیا۔
اس کے باوجود سلطان راہی نے ہمت نہ ہاری، رفتہ رفتہ ان کے لیے بہار کے امکانات روشن ہونے لگے۔
سلطان راہی کے لیے 70 کی دھائی کامیابی کے جلو میں آئی۔ فلم ’بابل‘ (1971) میں اہم کردار ملا۔ فلم ’بشیرا‘ (1972 ) کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ 1975 میں ’وحشی جٹ‘ کی بھرپور کامیابی سے سلطان راہی کو بہت شہرت حاصل ہوئی جسے 1979 میں فلم ’مولاجٹ‘ کی بے نظیر کامیابی نے پَر لگا دیے۔ اس فلم نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
مولاجٹ میں سلطان راہی کا یہ ڈائیلاگ زبان زد عام ہوا ’مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مرسکدا‘
سابق صدر آصف علی زرداری سے ایک دفعہ ان کی سکیورٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں مذکورہ ڈائیلاگ سنا دیا۔ مولا جٹ میں مصطفیٰ قریشی نے ’نوری نت‘ کا یادگار کردار کیا، ان کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا ’نواں آیا اے سوہنیا؟‘ اس فلم کو ریلیز ہوئے 40 برس ہوچکے لیکن اس کا ذکر اب بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔
بلال لاشاری نے اس فلم کا ری میک ’دا لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کے نام سے بنایا ہے۔
70 کی دھائی میں سلطان راہی نے کامیابی کے جس سفر کا آغاز کیا وہ 80 کی دھائی میں بھی آب وتاب سے جاری رہا۔
اس عشرے کا آغاز ہی کامیابی کی نوید ثابت ہوا۔ 12 اگست1981 کو ان کی پانچ فلمیں ’شیر خان‘، ’سالا صاحب‘، ’چن وریام‘، ’اتھرا پتر‘، ’ملے گا ظلم دا بدلہ‘ ریلیز ہوئیں۔ اس کے بعد سلطان راہی نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا اور مرتے دم تک فلم انڈسٹری پرراج کیا۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری کی انسائیکلوپیڈیا ’پاکستان کرونیکل‘ کے مطابق ’سلطان راہی نے مجموعی طور پر 804 فلموں میں کام کیا جن میں 500 سے زیادہ فلمیں پنجابی زبان میں اور 160 فلمیں اردو زبان میں بنائی گئی تھیں جبکہ 50 سے زیادہ فلمیں ڈبل ورژن تھیں، ان میں سے 430 فلمیں ایسی تھیں جن کا مرکزی کردار سلطان راہی نے ادا کیا تھا۔
سلطان راہی کی مشہور فلموں میں ’بشیرا‘، ’شیر خان‘، ’مولا جٹ‘، ’سالا صاحب‘، ’چند وریام‘، ’آخری جنگ‘ اور ’شعلے‘ کے نام سرفہرست ہیں۔
سلطان راہی بڑے اداکار ہی نہیں بڑے انسان بھی تھے۔ مذہب سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔ کسی دوسرے کا احسان انہیں ہمیشہ یاد رہتا۔ ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے۔ ان کی خوش اخلاقی اور انکساری کے بہت سے واقعات لوگوں نے بیان کیے ہیں۔ اداکارہ بہار بیگم نے سینکڑوں فلموں میں سلطان راہی کی ماں کا کردار ادا کیا اور ان کے بقول، ایک موقع پر انہیں لگنے لگا جیسے وہ ان کی حقیقی ماں ہیں۔ سلطان راہی کو بھی فلموں میں اپنی ماں کے کردار میں بہار بیگم ہی موزوں لگتیں۔
بہار بیگم کا بیان کردہ ایک واقعہ ہم نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان راہی کے دل میں سینیئرز کا کس قدر احترام تھا۔ ’……شروع میں راہی بریک کے ٹائم میں میرے قریب نہیں بیٹھتا تھا بلکہ مونڈھا لے کر اور جگہ جا بیٹھتا تھا، مجھے یہ بہت برا لگتا تھا۔ میں سوچتی تھی شاید وہ مغرور ہے لیکن ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ راہی تم خود کو بہت بڑا اداکار سمجھتے ہو۔ کہنے لگا میڈم یہ بات نہیں بلکہ آپ بڑے لوگ ہیں، مجھ سے سینیئر ہیں کیونکہ اشفاق ملک کی ’اجنبی‘ فلم میں جب آپ ہیروئن تھیں تو میں ڈانگ لے کر ایکسٹرا کے کردار میں کھڑا ہوا کرتا تھا، اس لیے میں آپ کے برابر نہیں بیٹھ سکتا۔‘
موت سے کس کو رستگاری ہے لیکن سلطان راہی کی زندگی کا خاتمہ بڑے دردناک اور دلخراش انداز میں ہوا۔ ان کے قتل سے متعلق کئی روایات ہیں۔ ان میں سے ایک روایت سابق سفیر اور سلطان راہی کے قتل کے وقت ایس ایس پی گوجرانوالہ جمیل احمد خان نے اپنی کتاب ’سپاہ گری سے سفارت کاری‘ تک میں بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’گوجرانوالہ بائی پاس پر جہاں سلطان راہی کا قتل کیا گیا، آئے دن ڈکیتی کی وارداتیں ہوا کرتی تھیں۔ اس روڈ پر بنے ہوئے سپیڈ بریکرز کی وجہ سے ڈرائیور گاڑی آہستہ کرنے پر مجبور ہو جاتا یا پھر کسی بدنصیب کی گاڑی اس جگہ خراب ہو جاتی تو اسے ڈاکو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیتے تھے۔‘
سلطان راہی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا تھا۔ ان کے دیرینہ ڈرائیور کے بیان کے مطابق گاڑی بائی پاس سے گزر رہی تھی کہ ٹائر پنکچر ہو گیا۔ ڈرائیور تو ٹائر تبدیل کرنے میں مصروف ہو گیا جبکہ سلطان راہی کار کے قریب کھڑے رہے۔ اتنے میں کچھ ڈاکو نمودار ہوئے اور ایک نے پستول سلطان راہی کے گلے پر رکھ دیا۔ فطرتاً یا عادتاً (فلمی) سلطان راہی نے پستول کی نال پکڑ لی جس پر ڈاکو نے گھبراہٹ میں گولی چلا دی، جو سلطان راہی کے نرخرے سے پار ہو کر گردن کی دوسری جانب سے نکل گئی اور ان کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔
یقیناً اس کیس کی تفتیش میں عرق ریزی کی ضرورت تھی لہٰذا میں نے جائے وقوعہ پر ہی شامیانہ لگا کر ڈیرہ (کیمپ آفس) لگا لیا، گوجرانوالہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی حکام سے رابطہ کر کے ایبٹ آباد سے سراغ رساں کتے منگوائے گئے۔ جن کی مدد سے ایک ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی۔ کیس کی اہمیت اور حساسیت کے باعث چند ہی دنوں میں اس کی تفتیش لاہور کرائم برانچ کے حوالے کر دی گئی جو کہ پیشہ ورانہ اعتبار سے درست فیصلہ تھا۔
کرائم برانچ کے پاس جتنے وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں اس کی وجہ سے سیاسی لوگوں کے ملوث ہونے کی بھی تحقیقات کرنا آسان سمجھا جاتا ہے۔ پھر سلطان راہی قتل کیس میں صرف ڈاکو کی فائرنگ کو ہی مدنظر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی سیاسی لوگوں سے ملاقات کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ ایک بات اور واضح کر دوں کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور میرا تعلق بھی بنیادی طور پر سندھ سے ہے، ایسے میں اس کیس کو کرائم برانچ کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہر اعتبار سے درست تھا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم جس سمت میں تحقیقات کو لے جا رہے تھے اور اس ضمن میں ایک ملزم کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ کرائم برانچ کی تفتیش بھی اسی سمت میں آگے بڑھی اور ایک اور ملزم کو گرفتار کیا گیا، چالان پیش ہوا اور ملزمان کو سزا بھی ملی۔‘
9 جنوری 1996 کو جب سلطان راہی نے دارِ فانی سے کوچ کیا تو ان کی 54 فلمیں زیرِتکمیل تھیں۔
سلطان راہی کے بیٹے حیدر سلطان نے فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی لیکن وہ اس میدان میں اپنا کوئی خاص رنگ جمانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔