ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب پاکستان دہشت گری کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن مرحلہ سے گزر رہا تھا، اُس وقت ملک کے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر دفاع خواجہ آصف، اپنی ذاتی سیاسی لڑائی کے باعث ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار تک نہ تھے۔
اس وقت بظاہر، خواجہ صاحب چوہدری نثار کے مخالف کیمپ میں ہوا کرتے تھے اور سیاسی معاملات میں شاذ و نادر ہی دونوں کا کسی نکتہ پر اتفاق تھا۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب خواجہ صاحب اور چوہدری نثار ایک ہی نظریاتی کیمپ میں ہوں گے یا اگر یہ کہا جائے کہ خواجہ صاحب سمیت مسلم لیگ کی اندرونی اسٹیبلشمنٹ جسے ’اولڈ گارڈ‘ کہہ لیں، وہی سرک کر چوہدری نثار کے نظریاتی کیمپ میں چلی گئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
مزید پڑھیں
-
اس کنفیوژن سے نکلا کیسے جائےNode ID: 449501
-
’خان صاحب کا این آر او پلس کا تحفہ‘Node ID: 450486
-
ایکسٹینشن لو، ایکسٹینشن دوNode ID: 451621
نظریے کے علاوہ دوسرا اختلاف نئے سیاسی طریقہ کار پر تھا۔ آج سے چار سال قبل چوہدری نثار نے جب کھل کر بیان دیا کہ پارٹیاں سوشل میڈیا سے نہیں چلتیں، تب ان کا یہ پیغام بالواسطہ مریم نواز اورمسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا بریگیڈ کے لیے تھا۔
گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں، خواجہ صاحب نے خصوصی فرمائش کر کے سوشل میڈیا کے حوالے سے پوچھوائے گئے سوال کے جواب میں یہ کہہ کر کہ پارٹیاں سوشل میڈیا پر نہیں چلتیں، پیغام مریم نواز اور ان کے ہم خیالوں کو ہی دیا ہے۔ سخت گیراختلاف رائے رکھنے والے دونوں کا نقطہ اتفاق ہوا تو وہ مریم نواز، ان کا سیاسی نظریہ اور طریقہ کار ہی بنے۔
گذشتہ چند ہفتوں میں مسلم لیگ کی ’اولڈ گارڈ‘ اور غیر روایتی نئی قیادت کے درمیان حائل خلیج مزید واضح ہو گئی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کے دونوں کیمپس سے بات کریں تو موجودہ سیاسی پیش رفت پر ان کے رد عمل میں بہت واضح فرق ہے۔
اولڈ گارڈ، نئے سیاسی بندوبست سے مطمئن اور پر اعتماد دکھائی دیتی ہے۔ وہ دہائیوں کی سیاسی عرق ریزی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دوبارہ اقتدار کی غلام گردش میں قدم رکھنے کے لیے اس سے موثر اور بروقت فیصلہ کیا نہیں جا سکتا۔

دوسری طرف نئی پود میں تشویش ہے، بے وفائی اور استعمال ہونے کا صدمہ ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلہ کن ضرب اب بھی نہ لگائی گئی تو دوبارہ موقع نہ مل پائے گا۔ اب اس قدم کے دفاع کی نہ ان میں ہمت ہے اور نہ ہی تحریک۔
نواز لیگ کی اندرونی اسٹیبلشمنٹ یعنی پرانی قیادت اور نئی پود کے درمیان جاری کشمکش اب ڈرائنگ رومز سے نکل کر ٹیلی وژن سکرینز اور سوشل میڈیا پر آ چکی ہے۔ واضح طور پر نئی پود کی نمائندگی اور قیادت دونوں مریم نواز کے پاس ہیں۔
مگر ن لیگ کی اندرونی اسٹیبلشمنٹ مریم نواز کی قیادت کو تسلیم اور اس پر اعتماد کرنے سے کھلم کھلا انکاری ہے۔
ایسے حالات میں جب نواز شریف اپنی سیاسی وراثت مریم نواز کے سپرد کرنے کے واضح اشارے دے چکے ہیں، ن لیگ کے ’انکلز‘ کا مریم نواز کو تسلیم اور نظر انذاز کرنا دونوں ہی مشکل ہیں۔
صرف شاہد خاقان عباسی ہی پرانی قیادت میں سے مزاحمت کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے ہیں اور طویل القامت عباسی کا سیاسی قد بھی ہم عصروں میں بڑھ چکا ہے ورنہ باقی تمام نئی حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہیں۔

کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ باقی انکلز نے نظریات سے نظر چرا کر اپنا وزن شہباز شریف کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی طرح مریم نواز کو بھی اپنی سیاسی قیادت کو ’انکلز‘ کے بیچ تسلیم کرانے کے لیے بھرپور تگ ودو کرنی ہے۔
اولڈ گارڈ پرانے ووٹر کی نمائندہ ہے جس کو شاید ن لیگ کے اس یو ٹرن سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، مگر وہی نیا ووٹر جس کو عمران خان کی تحریک کے مقابلے میں اپنے حلقہ اثر میں لایا گیا، سوشل میڈیا اور یوتھ کنونشنز میں متحرک کیا گیا اور ان سے ووٹ کی عزت کے نعرے لگوائے گئے وہ شاید اس نظریاتی گھاؤ سے جانبر نا ہو سکے۔
بہر حال اس وقت معروضی حالات تو یہ ہی بتاتے ہیں کہ ن لیگ سیاست کا محور اگلے کچھ عرصے تک شہباز شریف اور یہ اولڈ گارڈ ہی ہوں گے۔
شہباز شریف ہمیشہ سے سیاست میں بتانے سے زیادہ چھپانے اور سامنے سے زیادہ پس منظر کے قائل ہیں۔ ان حالات میں جب تک ن لیگ کی رسائی وفاق یا پنجاب میں ایوان کے اپوزیشن بینچوں سے سرکاری بینچوں تک نہیں ہوتی اس اولڈ گارڈ کے پاس کارکنوں کو دکھانے کے لئے کچھ خاص نہیں ہے۔
