Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پرویز مشرف کی سزائے موت ختم مگر جرم ختم نہیں ہوا‘

’ہائی کورٹ نے ایک ایسی عدالت کے بارے میں فیصلہ سنایا جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)
لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے جرم میں خصوصی عدالت سے دی جانے والی سزائے موت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اس عدالت کے قیام کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا ہے بلکہ ٹرائل کے سارے عمل کو بھی کالعدم کر دیا ہے۔
اس حوالے سے ملک کے نامور وکلا نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تکنیکی طور پر پرویز مشرف کی سزا ختم ہو چکی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے سامنے تین چیزوں کو چیلنج کیا گیا۔ ایک تو اس عدالت کے قیام کو جس نے مشرف کا ٹرائل کیا تھا، دوسرا اس عدالت میں ہونے والے ٹرائل کو اور تیسرا اس عدالت کے فیصلے کو۔ بادالنظر میں لاہور ہائیکورٹ نے یہ تینوں استدعا منظور کر لی ہیں۔ اور اب پرویز مشرف بری تصور ہوں گے۔‘
اشتر اوصاف نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے جرم کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔ ’دوسرے لفظوں میں عدالت نے یہ نہیں کہا کہ پرویز مشرف سرے سے آئین توڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ صرف تکنیکی نکات پر سزا ختم کی گئی۔ یعنی مشرف کا جرم اپنی جگہ پے موجود ہے، صرف سزا ختم ہوئی ہے۔‘
ان کے بقول ’اس عدالت نے سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جو اس مقدمے کا سبب بنے بلکہ جو نظرثانی کی درخواست تھی اس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو لاگو رکھا۔‘
اشتر اوصاف نے اس بات کی طرف بھی نشان دہی کی کہ لاہور ہائی کورٹ نے ایک ایسی عدالت کے بارے میں فیصلہ دیا ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
’یہ بات میری سمجھ میں ابھی بھی نہیں آئی اور جو بھی کیس بنایا گیا ہے اصل میں تو یہ اپیل کا کیس تھا، رٹ جاری نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس حد تک مجھے عدالت سے اختلاف ہے۔ باقی اب یہ فیصلہ نافظ العمل ہے اس کو اب سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔‘
لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ایڈوکیٹ احمد اویس جو پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک میں ہر اول دستے کا حصہ تھے۔

لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے جرم کے بارے میں بات نہیں کی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کے ٹرائل کو خراب کرنے میں سابقہ حکومت کا ہاتھ ہے۔ ’آپ دیکھیں جو بات لاہور ہائی کورٹ میں زیر بحث آئی وہ یہ ہے کہ یہ خصوصی عدالت کیسے وجود میں آئی۔ یعنی کسی کو بھی نہیں پتا کہ یہ تین ججوں کا ٹریبیونل بنا ان کو کسی سے سیلیکٹ کیا گیا۔ جب آپ اتنے زیادہ خلا چھوڑیں گے تو اس طرح کے فیصلے تو ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ظالم کے ساتھ انصاف کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ظلم نہیں کیا جاتا۔ میرے خیال میں لاہور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار تھا اور وہ یہ رٹ جاری کر سکتی ہے اور اپنے فیصلے میں بھی عدالت نے یہ لکھا ہے۔ تو اس وقت پرویز مشرف کی سزا ختم ہو چکی ہے اور اس کی واحد وجہ وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت یہ سزا سنائی گئی۔‘

شیئر: