پاکستان میں لانگ مارچ عام طور پر سیاسی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں، لیکن بلوچستان کے ضلع لورالائی کے دو رہائشیوں نے ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کا انوکھا اقدام کیا ہے۔
’اشر تحریک‘ سے وابستہ دو رضا کاروں لعل محمد شاخکیوال اور نصیب اللہ میختروال نے تحصیل میختر سے ضلعی ہیڈ کوارٹر لورالائی تک 80 کلومیٹر کا پیدل لانگ مارچ شروع کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کا بنیادی مقصد جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کے شکار کے خلاف عوامی آگاہی کو فروغ دینا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کوئٹہ کی ہنہ جھیل میں لیکج، ’خشک ہونے کا خدشہ‘Node ID: 877181
-
کوئٹہ: ’سلیمان‘ مارخور کا شکار، پولیس اہلکار سمیت 3 شکاری گرفتارNode ID: 883820
لعل محمد شاخکیوال نے اردونیوز کو بتایا کہ لانگ مارچ کے پہلے دن 45 کلومیٹر طے کرتے ہوئے وہ جمعرات کو مئی وال کے مقام پر پہنچے، جہاں رات گزار کر جمعے کی صبح دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’راستے میں لوگ ملتے ہیں تو انہیں خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ہم اپنے کسی ذاتی فائدے یا سیاسی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ ایک اجتماعی مفاد کے لیے نکلے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں، لوگوں سے وعدہ لے رہے ہیں کہ وہ درخت لگائیں گے اور کسی کو اپنے علاقے میں درختوں کو کاٹنے اور شکار کرنے نہیں دیں گے۔‘
سوشل میڈیا پر اس مہم کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں اور ضلع کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔ لانگ مارچ میں ابتدا میں صرف دو افراد تھے، لیکن راستے میں روزی خان، سعید خان، طاہر کاکڑ، عبدالرحمان لالہ اور داؤد خان سمیت کئی دیگر لوگ بھی شامل ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی مہم کے ذریعے حکومت کو بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
لعل محمد لورالائی کی تحصیل میختر میں ویٹرنری میڈیکل سٹور چلاتے ہیں، اور گزشتہ کئی برسوں سے رضاکارانہ طور پر علاقے میں بڑی تعداد میں پودے اور درخت لگا چکے ہیں۔
’ہم گھروں کے اندر پودے لگانے پر زور دیتے ہیں، کیونکہ گھر کے اندر ان کی دیکھ بھال آسان ہوتی ہے۔‘
لانگ مارچ میں شریک نصیب اللہ میختر وال صبح کھیتوں میں کام کرتے ہیں، اور دوپہر کو سبزیاں فروخت کرنے کے بعد فارغ اوقات میں شجرکاری مہم میں حصہ لیتے ہیں۔
نصیب اللہ کے مطابق ’ہم دونوں اشر تحریک کا حصہ ہیں جو رضا کارانہ طور پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔‘
’اشر تحریک‘ کا آغاز ژوب کے سالمین خپلواک نے تقریباً پانچ سال پہلے کیا تھا۔ انہیں اس تحریک کا خیال کورونا وبا کے دوران آیا۔
’مجھے احساس ہوا کہ وائرس کے پھیلاؤ اور قدرتی آفات سمیت کئی دیگر بڑے چیلنجز انسان کی جانب سے فطرت میں مداخلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب درپیش ہیں۔‘

سالمین نے مقامی روایات کو ماحولیاتی تحفظ سے جوڑتے ہوئے ’اشر‘ (پشتونوں میں اجتماعی کام کی رضاکارانہ رسم ) کو نئے انداز میں اپنایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے اشر درختوں کی کٹائی اور لکڑی لانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ہم نے اس سوچ کو بدلا اب ہم اشر کی رسم کے ذریعے نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو جمع کرکے درخت لگاتے ہیں۔ اس طرح ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
سالمین کے مطابق ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2020 میں ژوب اور پھر لورالائی میں منفرد جرگے منعقد ہوئے، جس میں مقامی لوگوں اور قبائلی عمائدین نے جنگلات کی کٹائی اور شکار پر پابندی کا عہد کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس جرگے اور مہم کا اثر یہ نکلا کہ جو لوگ پہلے کھلم کھلا درخت کاٹتے تھے، یا شکار کرتے تھے اور سوشل میڈیا پر تصاویر اپلوڈ کرتے تھے اب کوئی سرعام یہ جرأت نہیں کر سکتا۔‘
لعل محمد نے بتایا کہ کچھ سال پہلے تک وہ خود بھی شکار کو فخر سمجھتے تھے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دعوت دے کر شکار پر لے جاتے تھے، لیکن اشر تحریک سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنا رویہ بدل لیا ہے۔
’درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے سرسبز علاقے ویران بن گئے۔ شکار کی وجہ سے ہمارے علاقے میں جنگلی خرگوش، چکور اور باقی جانور ناپید ہو گئے۔ اب اشر تحریک کی کوششوں سے شکار بند ہونے سے ان کی تعداد دوبارہ بڑھ گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے دن دیہاڑے لوگ آکر درختوں کی کٹائی کرکے ٹریکٹر ٹرالیاں بھر کر لے جاتے تھے اور کوئی انہیں منع نہیں کرتا تھا۔ اب اگر کٹائی ہوتی ہے، تو وہ چوری چھپکے ہو رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ عمل مکمل ختم ہو۔‘
سالمین خپلواک کے مطابق ہم مقامی کلچر اور روایات کو استعمال کرکے لوگوں کے رویے میں تبدیلی لا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اب تک لاکھوں درختوں کو کٹنے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں نئے درخت بھی لگا چکے ہیں۔ ہم مخصوص دنوں میں شجرکاری مہم بھی چلاتے ہیں۔ اس سال بھی لوگوں نے ہم سے ایک لاکھ پودے مانگے ہیں۔‘
سالمین نے بتایا کہ ’ہم حکومت سے پودے لینے کے علاوہ کسی سے کوئی مدد نہیں لیتے اور سب کام اپنی مدد آپ کے تحت مقامی لوگوں کی شراکت سے کرتے ہیں۔‘

ان کے بقول شجرکاری سے بارشوں میں اضافہ ہوگا، سیلاب، طوفان، خشک سالی سمیت دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم ہوں گے۔
’لانگ مارچ بھی ہماری اس آگاہی مہم کا حصہ ہے۔ یہ ہماری تحریک کے ان دورضا کاروں کی شعور و آگاہی پھیلانے کی کوشش ہے جو محنت مزدوری کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں معاشرے کے مفاد کی فکر ہے۔ اس لانگ مارچ کے ذریعے انہوں نے کوشش ہے کہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو معاشرے میں بحث کا موضوع بنائیں۔‘
سالمین کے الفاظ میں ’ہم ماحول کو مکمل بحال تو نہیں کر سکتے، لیکن اسے بچانے کی کوششیں ضرور کر سکتے ہیں۔ یہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سب سے بڑی وراثت ہوگی۔‘