Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب جبری گمشدگی پر ضابطہ فوجداری کا مقدمہ درج ہو گا‘

پاکستان کی وزارت انسانی حقوق نے جبری گمشدگیاں روکنے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت نے بل تیار کر کے وزارت قانون کو بھیج دیا ہے۔ جبری گمشدگی کرنے والے کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج ہو گا۔
’اردو نیوز‘ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ ’حکومت تعزیرات پاکستان میں ترمیم لا رہی ہے۔ اگر کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کو عدالت میں پیش کریں گے۔ اس پر باقاعدہ چارج لگائیں گے۔ یہ نہیں کہ رات کے اندھیرے میں کسی کو اٹھا کر لے جائیں، سالہا سال پتا ہی نہ ہو کون کہاں کہاں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری وزارت نے بل تیار کر کے مزید ڈرافٹنگ کے لیے وزارت قانون کو بھیج دیا ہے۔ امید ہے کہ وہاں سے بھی جلد آ جائے گا اور اسے منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کر دیں گے۔‘
شیریں مزاری نے کہا کہ ’جبری گمشدگیوں کے معاملے پر دونوں سابقہ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ ہم نے اس معاملے کو ضابطہ فوجداری کے تحت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
چند دن قبل وزارت انسانی حقوق نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق سب سے زیادہ قانون سازی موجودہ دور میں ہوئی ہے۔ اس حوالے سے شیریں مزاری نے کہا کہ ’ہمارے بل قائمہ کمیٹیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ معذور افراد اور زینب الرٹ بل ایک سال تک قائمہ کمیٹی میں رکے رہے۔ اب وہاں سے پاس ہوئے تو اسمبلی نے ان کو فوراً منظور کر لیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق سے متعلق بلوں پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ سینیٹ میں ایسا نہیں ہو گا۔ اگر وہ کوئی ترامیم لاتے ہیں تو زینب الرٹ بل دوبارہ اسمبلی میں لے جانا پڑے گا۔‘

شیریں مزاری کے مطابق جبری گمشدگیوں کا بل وزارت قانون کو بھیج دیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

شیریں مزاری نے کہا کہ ’پارلیمانی طریقہ کار اور بیورکریٹک روکاوٹوں کی وجہ سے انسانی حقوق کے بل تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ بزرگ شہریوں کے حقوق سے متعلق بل کمیٹی میں اور گھریلو تشدد سے متعلق بل وزارت قانون میں اٹکا ہوا ہے۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’قانون سازی میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت، مالی معاملات اور دیگر امور آڑے آتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو سوچتی ہوں کہ نجی بل حکومتی بل سے جلدی منظور ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے راستے میں اتنی جگہوں سے منظوری لینے کی رکاوٹ نہیں ہوتی۔‘
شیریں مزاری نے تسلیم کیا کہ ’موجودہ دور حکومت میں انسانی حقوق سے متعلق ایک بھی بل ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں بن سکا۔‘
اپنی وزارت کی کارکردگی کے حوالے سے شیریں مزاری نے دعویٰ کیا کہ ’ماضی میں انسانی حقوق کے حوالے سے توجہ سوشل ویلفیئر کی طرف ہوتی تھی۔ ہم نے آئین میں دیے گئے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی،اقدامات اور آگاہی شروع کی ہے۔ چند اقدامات پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ اب ہم نے بھی کچھ اقدامات اٹھائے ہیں اس لیے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہماری وزارت کارکردگی کے لحاظ سے ٹاپ فائیو میں ہے۔‘

حکومت کا دعویٰ ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق زیادہ قانون سازی اس نے کی۔ فائل فوٹو

مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال مثالی نہیں ہے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے مسائل کیا ہیں؟ دنیا کے دیگر ممالک تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کے ہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں زیادہ ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے، مساجد بند کر دی جاتی ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں تو مسلمان خواتین کو ان کی مرضی کا لباس پہننے سے روکنے کے لیے قانون سازی ہوتی ہے۔ امریکہ نے چھ مسلمان ممالک کو ویزے جاری نہ کرنے کا اعلان کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق کا مسئلہ ہر جگہ پر ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہر ملک میں ہوتی ہے۔ عورتوں کے خلاف بھی تشدد صرف پاکستان میں نہیں ہوتا لیکن ہماری وزارت اس حوالے سے آگاہی دیتی ہے۔‘
انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان میں پہلے سے موجود قوانین کے بارے میں شیریں مزاری نے کہا کہ ’ہمارے ہاں قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ کم عمر بچوں کے حوالے سے انصاف کی فراہمی کا نطام بن چکا ہے جو دنیا کے بہت کم ممالک میں ہے۔ پاکستان میں مخنث افراد کے لیے قانون اس وقت لاگو ہو چکا ہے۔ جو صرف دنیا کے چھ، سات ممالک میں ہی ہے۔‘

شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہر جگہ پر ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انہوں نے کہا کہ ’دنیا کو یاد دلانا چاہیے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں غیر مسلموں کے پرسنل قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ بن چکا ہے۔ مسیحی میرج اور طلاق ایکٹ مسیحی طبقوں کے باہمی عدم اتفاق کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ ہمارے ہمسائے انڈیا میں اقلیتوں سے حقوق چھینے اور ان کے خلاف قوانین بنائے جا رہے ہیں جبکہ ہم غیر مسلموں کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کہ ’اگلے ہفتے زینب الرٹ بل سینیٹ سے بھی منظور ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں ترامیم پر مبنی بل پاس ہونے کے فوراً بعد اتھارٹی بنائیں گے۔‘
اپنی وزارت کے قلم دان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ تو وزیر اعظم کا استحقاق ہے کہ کس کو کون سی وزارت دیں لیکن میں نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ وزارت خارجہ کا قملدان دیں اور اگر وہ نہیں تو پھر انسانی حقوق، تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ وزارت خود لی تھی۔‘

شیئر: