Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موٹر سائیکل کے پیسے پورے ہو گئے

رخسانہ کے لیے اس کی پھوپھو نے رشتہ مانگا ساتھ جہیز میں موٹر سائیکل دینے کی شرط بھی رکھ دی۔ فوٹو:پکسا بے
زارا منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی، ہر طرف دولت کی ریل پیل تھی۔ مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی، چھٹیاں لندن اور اٹلی میں گزارتی۔ اس کے والد اسلم شاہ ملک کے امیر صنعت کار تھے۔
رخسانہ ایک سرکاری سکول ٹیچر استاد رفیق کے گھر پیدا ہوئی۔ والد نے اس کو ہمیشہ صبر قناعت کا درس دیا۔ وہ سرکاری سکول میں استعمال شدہ کتابوں سے پڑھتی رہی۔ عید کے عید جب اسے نئے کپڑے ملتے تو وہ بہت خوش ہوتی۔ انہیں پہن کر ایسے اتراتی کہ جیسے وہ کوہ قاف کی پری ہو۔
زارا نے اپنی پسند سے سعد سے شادی کا فیصلہ کیا۔ ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کو ہائر کیا گیا۔ زارا ویڈز سعد کا ہیش ٹیگ منتخب کیا گیا، اس ہیش ٹیگ کے ساتھ شادی کی تقریبات ٹوئٹر،انسٹاگرام اور فیس بک پر لائیو نشر کی گئی۔ لاہور کے سب سے بڑے سنار سے ہیروں کے ہار بنوائے گئے۔ زارا کو سونا چاندی پسند نہیں۔ عروسی لباس انڈیا کے ڈیزائنر نے بنائے، مہندی لگانے کے لیے دبئی سے ڈیزائنر آئی، پاکستان کے مہنگے ترین فوٹو گرافر نے فوٹو گرافی کی اور ہر پل کی تصاویر سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ زارا ویڈز سعد کے ساتھ پوسٹ ہوئی۔ نکاح کی تقریب بادشاہی مسجد میں ہوئی۔ شادی فائیو سٹار ہوٹل اور ولیمہ شاہی قلعے میں ہونا قرار پایا۔
رخسانہ کے لیے اس کی پھوپھو نے رشتہ مانگا، ساتھ جہیز میں موٹر سائیکل دینے کی شرط بھی لگا دی۔ ماسٹر رفیق بہت پریشان ہوئے کہ یہ شرط کیسے پوری کی جائے۔ انہوں نے کپڑے برتن تو رخسانہ کی پیدائش کے ساتھ جوڑنا شروع کردیے تھے، رخسانہ کی مرحومہ ماں کی سونے کی بالیاں بھی پڑی تھیں لیکن موٹر سائیکل اور برات کے لیے کھانا؟ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ اپنی سگی بہن کو بیٹی دے رہے تھے لیکن اس سے یہ امید نہ تھی کہ وہ جہیز کی فہرست ہاتھ میں تھما دے گی۔
رخسانہ نے انار کلی بازار سے سستا والا لال رنگ کا جامہ وار خریدا اور خود اس پر ستارے کاڑھنے لگی۔ بچپن سے ایک ٹرنک میں ابا اس کے جہیز کے نام پر چیزیں جمع کر رہے تھے۔ اس نے ٹرنک کھولا اور ریشمی کپڑوں کو دھوپ لگوائی۔ واٹر سیٹ، ٹی سیٹ ،ڈنر سیٹ کو صاف کر کے رکھا اور سلائی مشین کی دھول صاف کر کے شادی کا جوڑا سینا شروع کردیا۔

رخسانہ نے انار کلی بازار سے سستا والا لال رنگ کا جامہ وار خریدا اور خود اس پر ستارے کاڑھنے لگی، فائل فوٹو: روئٹرز

ماسٹر رفیق بہت خود دار رہے، کبھی امانت میں خیانت نہیں کی۔ سوچ میں پڑ گئے کہ رخسانہ کے جہیز میں موٹر سائیکل کے لیے کس سے مدد مانگیں۔ ان کو یاد آیا کہ اسلم شاہ جو کہ کالج میں ان کا ہم جماعت تھا اس سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ڈرتے ڈرتے اس کو کال کی وہ امیر بندہ تھا اور ماسٹر صاحب کے پاس عزت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اسلم نے بہت گرم جوشی سے کال سنی اور کہا کہ ’آج میری بیٹی کی شادی ہے وہاں آؤ میں تمہاری مالی مدد کردوں گا۔‘ ماسٹر رفیق نے عید کا جوڑا نکالا بوسیدہ بوٹ کو اچھی طرح صاف کیا اور سر پر جناح کیپ پہن کر فائیو سٹار ہوٹل کی طرف چل پڑے۔
پہلے تو ان کا عام لباس دیکھ کر سکیورٹی نے بہت تنگ کیا بھلا امیروں کی محفل میں غریبوں کا کیا کام، لیکن بعد میں جب اپنے بٹن والے فون پر اسلم کا ایس ایم ایس سکیورٹی کو دکھایا تو انہیں جانے دیا گیا۔ شادی ہال میں داخل ہوتے ہی ماسٹر رفیق دنگ رہ گئے۔ ہال میں ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ تھی، پانی کے فوارے، کرسٹل کے جھومر، مہمانوں کی پوشاک اتنی قیمتی کہ بیان سے باہر، خواتین زیورات میں لدی ہوئی تھیں، ہر طرف بیرے کھانے کی چیزیں میز پر چن رہے تھے۔ بوفے میں کوئی 50 ڈشز تھیں۔ دلہا اور دلہن سٹیج پر مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے تھے۔ ماسٹر رفیق نے ایسی دنیا پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ بس بیٹھ کر یہ جوڑ توڑ کر رہے تھے کہ ان کے پاس 15 ہزار ہیں جس میں سے پانچ ہزار سکول کے اساتذہ نے اکٹھے کر کے دیے رخسانہ بیٹی کی شادی کا تحفہ۔ موٹر سائیکل 85 ہزار کی ہے بس یہاں سے پیسے مل جائیں تو کل رخسانہ کا نکاح آرام سے ہو جائے۔

شادی فائیو سٹار ہوٹل اور ولیمہ شاہی قلعے میں ہونا قرار پایا، فوٹو: اے ایف پی

اسلم ان سے بہت اچھی طرح ملے، بیرے کو کہا ماسٹر رفیق صاحب کو کھانا کھلائے اور ایک لفافہ تھما گئے جس میں پچاس ہزار کی رقم تھی۔ ماسٹر صاحب بہت مشکور ہوئے زارا بیٹی کو اچھے نصیب کی دعا دی۔
پر اب بھی 20 ہزار کی بڑی رقم کم ہے۔ دلہا دلہن جب گانے پر رقص کررہے تھے تو رشتہ داروں نے لاکھوں وار دیا لیکن ان کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ پیروں میں سے جھک جھک کر پیسے اٹھاتے۔ اس ہی سوچ میں مگن ہوٹل سے باہر نکلے تو ایک مہنگی گاڑی سے ٹکرا گئے کپڑے لہو لہان ہو گے۔ وہ امیر زادہ گالیاں دیتا ہوا باہر نکلا، مرنا ہے تو مینار پاکستان سے کود کر مر میری گاڑی کے اگے کیوں آیا منحوس انسان گاڑی پر نشان پڑ گیا۔ ماسٹر صاحب درد سے کراہنے لگے لیکن ان کو یہ فکر تھی کہ ان کے پاس بہت بڑی رقم موجود ہے کہیں وہ بے ہوش نہ ہوجائیں۔ ہجوم اکٹھا ہو گیا گاڑی والے کو برا بھلا کہنے لگے۔ ماسٹر صاحب کی ٹانگ سے خون نکل رہا تھا۔ بڑی گاڑی والا ان پر پانچ ہزار کے چار نوٹ پھینک گیا کہ علاج کرا لینا۔ ماسٹر صاحب نے ٹانگ پر رومال باندھ لیا لنگڑاتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑے اور منہ میں بڑبڑاتے رہے شکر ہے موٹر سائیکل کے پیسے پورے ہو گئے شکر ہے موٹر سائیکل کے پیسے پورے ہو گئے۔

شیئر: