مئی 2016 میں حکومت نے پی آئی اے کو کارپوریشن سے کمپنی میں تبدیل کیا (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کو درخشاں ماضی کی بنیاد پر ایک قابل فخر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کے بعد سے ادارے کے مالی اور انتظامی معاملات تو خراب تھے ہی لیکن گذشتہ کئی سالوں سے اس ادارے کا ہر سربراہ بھی متنازع ہو جاتا ہے۔
گذشتہ چھ سالوں کے دوران مشیر و معاون خصوصی برائے ہوا بازی، چیئرمین اور سی ای او پی آئی اے سمیت تمام اہم شخصیات میں سے کوئی بھی اپنے عہدے پر نہ صرف مدت پوری نہیں کر سکا بلکہ اسے کئی طرح کے الزامات اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
گذشتہ چھ سال پی آئی اے میں کیا ہوتا رہا؟
2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے ساتھ ہی نواز شریف نے شجاعت عظیم کو معاون خصوصی برائے ہوا بازی ڈویژن تعینات کیا۔ ان کی تعیناتی پر اعتراضات کے باعث سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع سے الگ کرکے نیا ڈویژن بنا دیا گیا۔
اس دوران حکومت نے ناصر جعفر کو پی آئی اے کا چیئرمین تعینات کیا تاہم پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ملازمین کی ہڑتال کے دوران پولیس اور رینجرز کی فائرنگ سے تین افراد کی ہلاکت کے واقعہ پر ناصر جعفر مستعفی ہوگئے۔
ان کے بعد حکومت نے سیکرٹری ایوی ایشن عرفان الہی کو چئیرمین پی آئی اے کا اضافی چارج دے دیا۔
مئی 2016 میں حکومت نے پی آئی اے کو کارپوریشن سے کمپنی میں تبدیل کیا۔ پی آئی میں اصلاحات لانے اور اسے دوبارہ منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے غیر ملکی سی ای او کا انتخاب کیا گیا۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے برنڈ ہلڈن برانڈ کو پہلے سی او او اور بعد ازاں سی ای او لگایا۔ ان کے ساتھ اعظم سہگل کو چیئرمین پی آئی اے لگا یا گیا۔
اعظم سہگل حویلیاں طیارہ حادثے کے بعد مستعفی ہو گئے اور ان کے کچھ ہی عرصے بعد برنڈ ہلڈن برانڈ کو عہدے کے غلط استعمال اور طیاروں کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے سمیت مختلف الزامات پر برطرف کر دیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ برنڈ ہلڈن برانڈ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھا انہوں نے اپنا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کی درخواست دی۔ نام ای سی ایل سے خارج ہوتے ہی وہ بیرون ملک روانہ ہو گئے تھے اور یقین دہانی کے باوجود تحقیقات کا سامنا کرنے پھر پاکستان واپس نہیں آئے۔
اس دوران شجاعت عظیم نے پاکستانی ایئر پورٹس پر گراونڈ ہینڈلنگ کے ٹھیکے مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں کو دیے جانے کے الزامات پر استعفی دے دیا۔ 2018 میں سپریم کورٹ نے شجاعت عظیم کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
وزیر اعظم نے سابق گورنر کے پی کے سردار مہتاب احمد کو معاون خصوصی تعینات کیا۔ جنہوں نے مشرف رسول کو پی آئی اے کا سی ای او تعینات کیا۔ سپریم کورٹ نے ان کی تعیناتی کو اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا کہ وہ متعلقہ شعبے کا تجربہ نہیں رکھتے۔
جب مشرف رسول سی ای او تھے اس وقت حکومت نے ڈی جی سول ایوی ایشن کے عہدے سے برطرف ہونے والے ایئر مارشل (ر) عاصم سلیمان کو چیئرمین پی آئی اے تعینات کر دیا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ان کی تعیناتی کے فورا بعد پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ان کے پی آئی اے ہیڈ آفس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ان چھ سالوں میں دو مرتبہ چیئرمین پی آئی اے کا اضافی چارج سنبھالنے والے سیکرٹری سول ایوی ایشن عرفان الہی کو بھی نیب تحقیقات کا سامنا ہے۔
پی آئی اے سربراہان متنازع کیوں ہوتے ہیں؟
اس حوالے سے اردو نیوز نے سپریم کورٹ کی جانب سے تعیناتی کالعدم قرار دیے جانے کے باعث اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے والے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر مشرف رسول سے رابطہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’پی اے سربراہان کے متنازع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ادارے کے کمرشل اور انتظامی معاملات خراب ہیں۔ کئی فیصلے 15، 20 سال پہلے ہوئے۔ ان پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ ان کے اثرات موجود رہتے ہیں۔ نئے آنے والے سے امیدیں باندھ لی جاتی ہیں اور تفصیلات کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتیں۔‘
ان کے مطابق ’اگر خسارہ ہی کم کرنے کا معاملہ دیکھ لیں تو اس میں بھی تو سال لگیں گے ناں۔۔۔!! راتوں رات تو یہ معاملہ حل ہونے سے رہا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’دوسری وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے کے اندر اور باہر سٹیک ہولڈرز موجود ہیں۔ ان کے مفادات ہیں۔ انتظامیہ جب بھی کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے جو ان کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے تو وہ متحرک ہو جاتے ہیں اور ملبہ چئیرمین یا چیف ایگزیکٹو آفیسر پر ہی گرتا ہے۔‘
مشرف رسول نے تیسری وجہ یہ بتائی کہ ‘پی آئی اے سربراہ خود بھی کئی دفعہ غلط فیصلے کرتے ہیں۔ ادارے کے مفادات کا خیال نہیں رکھتے اور نقصان پہنچاتے ہیں جس وجہ سے وہ متنازع ہو جاتے ہیں۔‘
ترجمان پی آئی اے کے کہنا ہے کہ پی آئی اے عوامی مفادات کی کمپنی ہے۔ لوگوں کی امیدیں غیر حقیقی ہوتی ہیں اور وہ ڈرامائی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو صورت حال خراب ہوتی ہے اور معاملات عدالت میں پہنچ جاتے ہیں۔
پی آئی اے، انتظامی امور کیسے چلتے ہیں؟
پی آئی اے ایکٹ 2016 کے تحت پی آئی اے کے امور چلانے کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو آفیسر کی ہے۔ ادارے میں دو طرح کے بورڈز، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور انتطامی بورڈ ہیں۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کسی ایک رکن کو چیف ایگزیکٹو آفیسر بنا سکتے ہیں جو تمام امور کی نگرانی کرے گا۔
دوسرا آپشن یہ بھی ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کسی ایک فرد کو ذمہ داری دینے کے بجائے مجموعی طور پر امور چلانے کا فیصلہ کرے۔ ایسا کرنے کی صورت میں انھیں متحرک ہو کر کام کرنا پڑے گا۔
تیسرا آپشن یہ کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک کمپنی کے اندر سے کسی سینیئر افسر کو سی ای او کے فرائض سرانجام دینے کی ذمہ داری سونپ دیں۔
پی آئی کی مالی صورت حال
وفاقی وزیر برائے سول ایوی ایشن غلام سرور خان کے مطابق اس وقت پی آئی اے کا خسارہ 482 ارب روپے ہے تاہم اس کا آڈٹ ہونا باقی ہے۔ 2017- 18 کے آڈٹ کے مطابق پی آئی اے کا خسارہ 428 ارب روپے ہے۔ موجودہ سال میں مجموعی خسارہ 54 ارب روپے ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ پی آئی اے نے 2019 کے پہلے چھ ماہ میں اپنے ریونیو میں 44 فیصد اضافے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادارے نے 2018 کے پہلے چھ ماہ کے ریونیو 66 ارب 72 کروڑ روپے کے مقابلے میں 94 ارب 73 کروڑ روپے کمائے ہیں۔
سول ایوی ایشن حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پی آئی اے کے خسارے میں کمی کا دعویٰ درست لیکن اس کے پیچھے محرکات نقصان دہ ہیں۔ حکام نے بتایا کہ ’پی آئی اے کے ٹکٹوں کی بڑی تعداد غیر ملکی کرنسی میں فروخت ہوتی ہے۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر کم ہو جائے تو بیرونی کرنسی میں خریدے گئے ٹکٹ جب روپے میں تبدیل ہوتے ہیں تو وہ خسارے میں کمی دکھانے کے کام آتے ہیں۔‘
ترجمان پی آئی اے کے مطابق حکومت نے پی آئی کو آپریشنل نقصانات کم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حوالے سے ادارے کی کارکرکردگی بہتر ہے۔ آپریشنل نقصانات میں 75 فیصد کمی آئی ہے۔ آپریشنل نقصانات 21 ارب روپے سے کم ہوکر پانچ ارب روپے تک آگئے ہیں۔
عدالتی فیصلوں کے پی آئی اے پر اثرات
پی آئی اے کے آخری دو سی ای اوز کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہٹایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پی آئی اے کے سی ای او کی تعیناتی کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان مقدمات کو یکجا کر سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے ان مقدمات کا ریکارڈ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ نے کہا کہ ’ادارہ سمجھتا ہے کہ پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل تب ہی آتا ہے جب کسی بھی سربراہ کو اپنی مرضی سے کام کرنے، اپنی ٹیم بنانے اور کمپنی کے ماحول کو سمجھنے کا موقع دیا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عدالت کا اپنا معیار، نکتہ نظر اور طریقہ کار ہے۔ ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بھی ہے کہ ہر سال نیا سی ای او نہ تو ادارے کو خسارے سے نکال سکتا ہے اور نہ اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتا ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں سابق سی ای او پی آئی اے مشرف رسول نے کہا کہ پی آئی اے کے حوالے سے عدالتی فیصلے بہت زیادہ مفید نہیں رہے۔ پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے جس کی بہت سی تفصیلات کو عدالتی زبانی میں بیان کرنا ہی مشکل ہوتا ہے۔
’زیادہ تر برطرفیاں متعلقہ بیک گراونڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ پی آئی اے میں مینجمنٹ، کمرشل، انجنئیرنگ، فلائنگ اور فنانس سمیت کئی شعبہ جات موجود ہیں۔ ضروری نہیں کہ سی ای او کو جہاز چلانا آتا ہو۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ کس فیلڈ کا بندہ تعینات کرنا ہے۔‘