میڈیا پر کسی بھی طرح کی پابندی کے لیے پاکستان میڈیا الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا کے اختیارات و احکامات کو موردِ الزام کرنا ایسے ہی ہے گویا کراچی پریس کلب کے باہر کوئی شخص پلے کارڈ لے کر کھڑا ہو جائے کہ فلاں بے گناہ پر تشدد کے ذمہ دار تھانہ مٹھل کلاں کے ایس ایچ او کو ایس پی صاحب سخت سزا دیں یا ہائی وے ٹول پلازہ کے کیبن میں بیٹھے لڑکے سے اس بات پر لڑ لیا جائے کہ ہفتے بھر پہلے تو ٹول ٹیکس سو روپے تھا اب 120 کیوں لے رہے ہو۔
مزید پڑھیں
-
وسعت اللہ خان کا کالم: کُرتا شاندار مگر پاجامہ غائبNode ID: 423121
-
وسعت اللہ خان کا کالم: تہذیب کی درفنتنی!Node ID: 438531
-
جب سب جوتے کی نوک پر ہوNode ID: 453411
یا اوگرا کی جانب سے لیٹر پر پانچ روپے بڑھانے پر پٹرول ڈالنے والے لڑکے کو گھورا جائے یا ویٹر کو اس پر ڈانٹ دیا جائے کہ تمہارے ریسٹورنٹ میں ہمیشہ سلاد کے آئٹمز ایک جیسے ہی کیوں ہوتے ہیں انہیں بدلتے کیوں نہیں یا بینک کے کاؤنٹر پر کھڑے کیشیئر کا گریبان پکڑ لیا جائے کہ میرا چیک باؤنس کیوں ہوا؟
یا کسی ٹریفک کانسٹیبل سے پوچھا جائے کہ جب وہ جانتا ہے کہ سفید یونیفارم ایک دن میں ہی میلی ہو جاتی ہے تو وہ ملیشیا کی قمیض اور خاکی پتلون والی وردی کیوں نہیں پہنتا؟ یا کسی کچرا بیننے والے بچے سے پوچھا جائے کہ تم سکول کیوں نہیں جاتے کیا پڑھائی میں دل نہیں لگتا؟
یا کسی بھکاری کو ڈانٹا جائے کہ اتنے ہٹے کٹے ہو کر بھیک مانگتے ہو نوکری کیوں نہیں کرتے؟ یا کسی عالمِ دین سے کہا جائے کہ حضرت ذرا قانونِ تقلیلِ افادہِ مختتم (لا آف ڈائمینشنل یوٹیلٹی) کی اقتصادی تھیوری کا بیان تو فرمائیے۔ یا ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے پوچھا جائے کہ وہ دل کا بائی پاس کر سکتے ہیں کہ نہیں؟
یا پھر پیمرا سے ہی پوچھا جائے کہ اگر وہی ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور اس کے دائرہِ اختیار میں ٹی وی چینلز، ایف ایم ریڈیو، کیبل آپریٹرز بھی آتے ہیں تو پھر ان ٹی وی چینلز کی نشریات کیوں غائب ہو جاتی ہیں جنہیں کوئی نوٹس جاری نہیں ہوتا۔ بغیر نوٹس کے ایک چینل کا نمبر روزانہ کیسے تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک دن پانچ اور دوسرے دن 80 کون کر دیتا ہے؟ اور یہ جو چلتے پروگرام میں کبھی آواز غائب ہو جاتی ہے اور کبھی چہرہ تو یہ حرکت پیمرا والے کرتے ہیں یا سٹیٹ بینک کے اہل کار یا واپڈا والے یا مقامی تھانہ انچارج؟
جس جس نے بھی ابنِ صفی کی عمران سیریز پڑھی ہے اسے یاد ہو گا۔ ابنِ صفی کا عمران ایک پرکشش، زندہ دل، جملے باز، ہر مشن میں کامیاب اور دشمنوں کو اپنی چالوں سے ہمیشہ ششدر اور پریشان کرنے والا ہیرو تھا۔ عمران کی ٹیم میں جو جو بھی تھا اس کی نفسیات ہر قاری کو ازبر تھی مثلاً تنویر ہر وقت غصے میں رہتا تھا، صفدر کام سے کام رکھتا تھا، جولیانا فٹز واٹر سے عمران کا فلرٹ اور ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا مگر مشن پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوتا تھا۔ لحیم شحیم سیاہ فام جوزف مگونڈا عمران کا منہ چڑھا ڈرائیور تھا۔ سلمان عمران کا باورچی بھی تھا اور ساتھی بھی۔ کسی مشن میں کیپٹن حمیدی اور فریدی بھی عمران کی تھوڑی بہت معاونت کرتے تھے۔ سر سلطان جو غالباً اعلی سفارت کار تھے نہ صرف عمران کے سرپرست تھے بلکہ اسے کانفیڈینشل بریفنگز بھی دیا کرتے تھے۔
مگر ابنِ صفی سیکرٹ سروس کا ایک کردار تھا طاہر عرف بلیک زیرو اور اس سے بھی زیادہ ایک پر اسرار اور اعلی افسر تھا ایکس ٹو۔ کیا طاہر ہی ایکس ٹو تھا یا ایکس ٹو کوئی الگ پردوں میں چھپا کردار تھا۔ ابنِ صفی نے اس سسپنس کو اپنے ناولوں میں مبہم ہی رکھا۔ مگر یہ واضح تھا کہ عمران ہر مشن ایکس ٹو کے حکم پر بلیک زیرو کی معاونت سے اپنی وفادار ٹیم کے بل بوتے پر مکمل کرتا ہے۔
ابنِ صفی آج زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے کہ انہوں نے جو کردار اپنے ذہن میں تخلیق کیے وہ نہ صرف ان کے بعد بھی کاغذ پر زندہ رہے بلکہ اپنے بل پر پھلے پھولے اور جتنا کام ابنِ صفی ان کرداروں سے لینا چاہتے تھے اس سے سو گنا کام ان کرداروں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ بہت کم مصنف ہوتے ہیں کہ جن کے کردار وقت کے ساتھ ساتھ اتنے قدآور ہو جائیں کہ مصنف کے تخیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔
اگر مجھ سے ابنِ صفی کے مداح کے طور پر کوئی پوچھے کہ کون سا کردار سب سے زیادہ بھایا، تو میں جھٹ سے کہوں گا ایکس ٹو۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایکس ٹو کا چہرہ کیسا ہے، حلیہ کیا ہے مگر عمران سیریز اسی کی منصوبہ بندی کے دم سے چلتی رہی۔ ہم بے چینی سے ابنِ صفی کے نئے ناول کا انتظار کرتے تھے کہ دیکھیں اس بار ہمارا ہیرو اور اس کی ٹیم کیا کارنامہ انجام دے گا۔
آج کئی برس گذرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تو سب کاغذی کردار تھے۔ سکرپٹ ابنِ صفی کا تھا اور کاغذ پر کرداروں میں جان ڈانے والا ہدایت کار تو اس کاغذ پر پسِ پردہ رہنے والا ایکس ٹو تھا۔ وہی فیصلہ کرتا تھا کہ کس کردار کو کیا اور کتنا کرنا ہے اور کیسے۔
ابنِ صفی کا اگر کوئی کارنامہ ہے تو یہ کہ اس نے قاری کی توجہ صرف عمران اور اس کی فرنٹ ٹیم پر مرکوز رکھی اور کرداروں کے پیچھے کے کردار پر دھیان نہیں جانے دیا ۔ اسی لیے ہم عمران سیریز کو عمران سیریز کے نام سے ہی جانتے ہیں اور جانتے رہیں گے۔
بات پیمرا سے شروع ہو کر جانے کہاں نکل گئی۔ مگر ہم میڈیا والے بھی تو یہی کرتے ہیں۔ اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اور پھر کوئی نئی کہانی شروع ہو جاتی ہے اور چند دن بعد اس کہانی پر ایک نئی کہانی چڑھ جاتی ہے۔
اصل میں کیا ہو رہا ہے؟ یا تو میڈیا بے خبری کے سبب چپ ہے یا پھر باخبری کے سبب۔ بہرحال کہنا یہی چاہیے کہ جو بھی ہو رہا ہے اچھے کے لیے ہی ہو رہا ہے ۔ آئندہ بھی جو ہو گا اچھے کے لیے ہی ہوگا جیسا کہ ماضی میں سب اچھے کے لیے ہوتا آیا۔
73 برس میں اس عمل کے سوا بھی کچھ مستقل ہو تو مطلع فرمائیے۔
-
واٹس ایپ پر خبروں/ویڈیوز اور کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں