’کہانی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم اپنا پیغام بچوں تک بڑی آسانی سے پہنچا سکتے ہیں اور وہ ان کے ذہن میں رہ جاتا ہے، مثلاً ہم جنسی تشدد پر لکھی گئی کہانیاں اور نظمیں بچوں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔ انہیں اچھے اور برے لمس کے متعلق بتاتے ہیں۔ تاکہ خود کو محفوظ بنانے کا پیغام ان کے ذہن میں رہ جائے اور یہ اسے آگے پھیلائیں۔‘
یہ کہنا ہے لاہور کی رہائشی سعدیہ سرمد کا جو بچوں کو کہانیاں سناتی ہی نہیں بلکہ انہی کہانیوں سے ہی وہ ان کی تربیت بھی کرتی ہیں۔ کہانیاں سنانے کا ان کا طریقہ کچھ ہٹ کے اور خاص ہے۔
سعدیہ اپنے دلنشیں لہجے، جملوں کے اتار چڑھاؤ اور زبان و بیان سے بچوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ کہانی کے دوران ہی وہ بڑے بڑے پیغامات کوغیر محسوس انداز سے بچوں میں تقسیم کرتی جاتی ہیں۔ ان پیغامات میں سب سے اہم ان کی حفاظت ہے۔ وہ بچوں کو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے اپنے والدین کو ہر بات سے آگاہ کرنا ہے۔
مزید پڑھیں
-
منٹو حنیف محمد کی بیٹنگ کے دلدادہ تھے؟Node ID: 426766
-
صفیہ نے سعادت کو منٹو بنایاNode ID: 453721
-
اور سناؤ! کیا ہو رہا ہے؟ ابھی کال بیک کرتا ہوں۔۔۔Node ID: 454736
سعدیہ مختلف سکولوں اور بچوں سے جڑے ادبی میلوں میں جاتی ہیں اور وہاں پر آنے والے بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں۔ انہوں نے ’سنو کہانی میری زبانی‘ کے نام سے ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جس مییں بہت سے والنٹیرز ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جنہیں انہوں نے خاص طور پر کہانی سنانے کی تربیت دے رکھی ہے۔ یہ والنٹیرز ان کے ساتھ مل کر بچوں کو نہ صرف کہانیاں سناتے ہیں بلکہ مختلف کرداروں کی شکل میں یا مختلف روپ دھار کر اپنی کہانیوں کو تھیٹر میں پرفارم بھی کرتے ہیں۔
’ہم بچوں کو کہانیاں سناتے ہوئے ڈرامائی انداز اپناتے ہیں، جس سے بچے ہی نہیں ان کے والدین بھی ہماری جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ کہانی سنانے کے دوران ہم اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ ہی نہیں آواز بھی بدلتے ہیں۔ کہانی سنانے کے اس خاص طریقے کو ڈرامائی پڑھنت کہتے ہیں، یعنی ہم کہانی کو ڈرامے کی شکل میں پڑھ کر سناتے ہیں۔ ہم آواز سے کرداروں میں جان ڈالتے ہیں۔‘
سعدیہ کئی سالوں سے بچوں کو کہانیاں سنا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک گرافک ڈیزائنر ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائنگ سے گرافک ڈیزائننگ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ بچپن سے ہی تھیٹر اور اداکاری کی بہت شوقین تھیں اس کے علاوہ وہ اپنے سکول میں ہونے والے مباحثوں میں شریک رہیں۔ یونیورسٹی میں بھی وہ تھیٹر کرتی رہیں ہیں۔

سعدیہ بتاتی ہی کہ جب وہ اپنے بچوں کو سکول سے واپس لاتیں تو دوران سفر وہ انہیں آڈیو کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ پھر انہیں محسوس ہوا کہ انگریزی کی نسبت اردو میں آڈیو کہانیاں بہت کم ہیں۔ اور بچوں کو اردو سے جوڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو میں کہانیاں ہوں۔ کیونکہ آڈیو کہانیاں بچوں کے تخیل کو مظبوط کرتی ہیں۔ بچہ کہانی سنتے ہوئے تخیل میں کردار اور منظر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ ایسی کہانیوں کا ہونا ناگزیر ہے جو والدین لمبے سفر کے دوران بچوں کو سنا سکیں۔
بعد ازاں جب انہوں نے ایک نجی سکول میں لائبریرین کی نوکری کی تو وہاں بھی انہوں نے قصہ گوئی کو جاری رکھا۔ سعدیہ بتاتی ہیں کہ دوران سکول کہانیاں کہنے کے ساتھ وہ بچوں کو تھیٹر بھی کرواتی تھیں۔ وہیں سکول میں انہوں نے 70 کے قریب اساتذہ کو بھی قصہ گوئی میں تربیت دی۔
سکول کی نوکری چھوڑنے کے بعد سعدیہ کتابوں کی دکانوں میں کہانیاں ڈھونڈا کرتی تھیں، پھر وہی کہانیاں گھر بیٹھے اپنے بچوں کو سناتیں۔
انہوں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر سوچا کہ کیوں نہ ان کہانیوں کو سوشل میڈیا پر لایا جائے اور سکولوں اور ادبی میلوں میں پڑھا جائے۔ اس خیال پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے اپنا ایک گروپ ’سنو کہانی میری زبانی‘ شروع کیا۔

پھر انہوں نے اردو میں کہانیاں ریکارڈ کرنا شروع کر دیں۔ آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ صرف لاہور میں ہی نہیں، اسلام آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی، ملتان اور دیگر شہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد اس میں شامل ہو گئی۔ کینیڈا، انگلینڈ اور سعودی عرب سے بھی بہت سے قصہ گو ان کے پلیٹ فارم تک پہنچے اور ان کے گروپ میں شامل ہوئے۔ یہ تمام نا صرف اچھی کہانی لکھتے ہیں بلکہ بہت اچھے سے کہانی بیان بھی کرتے ہیں۔
سعدیہ کے مطابق آن لائن ’سٹوری ٹیلنگ سیشنز‘ شروع کرنے کے باعث لوگ اس میں شامل ہونے لگے۔ جو لوگ اچھا لکھنا جانتے ہیں اچھی کہانی کہنا جانتے ہیں ان کے لیے بہت آسانی ہوگئی۔ خاص طر پر خواتین گھر بیٹھے ان کے گروپ میں شامل ہو سکتی ہیں۔
