فوجداری جرائم کی کارروائی کے قانون کی دفعہ 21 میں وضاحت کی گئی ہے فوٹو : سوشل میڈیا
سعودی پبلک پراسیکیوشن کے مطابق’ کسی بھی ملزم کو فوجداری جرم کی سزا ایسی صورت میں نہیں دی جاسکتی اگر فوجداری کارروائی قانون کے مطابق انجام نہ دی گئی ہو‘۔
اخبار 24 کے مطابق پبلک پراسیکیوشن کا کوئی بھی رکن مخصوص حالات میں عدالتی کارروائی کا مجاز نہیں۔
اگر ممنوعہ حالات میں پبلک پراسیکیوشن کے رکن نے عدالتی کارروائی میں حصہ لیا تو ایسی صورت میں ملزم کو فوجداری جرم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
سعودی عرب میں فوجداری جرائم کی کارروائی کے قانون کی دفعہ 21 میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی ایک فریق کا پبلک پراسیکیوشن کے رکن کے ساتھ عداوت یا محبت کا ایسا رشتہ ہو جو ملزم سے پوچھ گچھ پر اثر انداز ہوتا ہو تو ایسی صورت میں ممکنہ طورپر متاثر ہونے والے فریق کا حق ہے کہ وہ ایسے انسپکٹر کو تحقیقات سے خارج کرنے کا مطالبہ کردے۔
قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر پبلک پراسیکیوشن کا کوئی رکن کسی جرم سے متاثر ہوا ہو یا رکن کسی فریق کا شوہر ہو یا فریقین میں سے کسی ایک سے اس کی براہ راست یا چوتھے درجے تک کی رشتہ داری ہو تو ایسی صورت میں پبلک پراسیکیوشن کا رکن مبینہ مقدمے کی تفتیش کا حصہ نہیں بن سکتا۔
قانون میں اس امر پر بھی پابندی لگائی گئی ہے کہ اگر پبلک پراسیکیوشن کے کسی رکن نے کسی مقدمے میں ماہر قانون یا ثالث یا وکیل یا شاہد کے طور پر کام کیا ہو تو وہ اس مقدمے کی کارروائی میں شریک نہیں ہوسکتا۔
پبلک پراسیکیوشن نے واضح کیا ’کسی بھی شخص کو صرف ایسے ہی کسی کام پر سزا دی جاسکتی ہے جسے سعودی قانون یا اسلامی شریعت میں جرم قرار دیا گیا ہو۔ سزا قانون کے مطابق مکمل کارروائی کے بعد ہی دی جاسکے گی۔
اخبار 24 کے مطابق پبلک پراسیکیوشن کا کہناہے’ جرم و سزا کا فیصلہ قانون اور شریعت کا کام ہے۔ کوئی بھی کام اس وقت تک جرم قرار نہیں دیا جاسکتا تاوقتیکہ قانون اور شریعت میں اس کی صراحت نہ کردی گئی ہو۔ سزا کے بارے میں بھی یہی اصول لاگو ہوگا‘۔
’ ملزم کو صاف شفاف پوچھ گچھ اور منصفانہ مقدمے کے بعد ہی مجرم قرار دیا جاسکے گا۔ مقدمے کے دوران تمام حقوق اور قانون و شریعت میں مقرر دفاع کی ضمانتیں دی جائیں گی۔