ٹیکے کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کی تعداد چار لاکھ 30 ہزار ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں کم از کم 67 لاکھ لوگ نشے کے عادی ہیں جن میں سے چار لاکھ 30 ہزار افراد ٹیکے کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر انسداد منشیات شہریار آفریدی نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا کہ منشیات کے خلاف کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ اشتراک سے آخری بار 2013 میں سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق ملک میں نشے کے شکار افراد کے اعدادو شمار مرتب کیے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا چھ فیصد حصہ مختلف قسم کی منشیات کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ خود وفاقی وزیر نے سال 2018 میں ایک تقریب میں دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد کے اعلی سطح کے سکولوں میں 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبا منشیات استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی معلومات کا ماخذ ایک این جی او کا سروے قرار دیا تھا۔ تاہم بعد میں ماہرین اور اسلام آباد کے سکولوں کی انتظامیہ نے ان اعداد و شمار کو مکمل طور پر غلط قرار دیا تھا۔
تاہم منگل کو سینٹ میں اپنے تحریری جواب میں شہریار آفریدی نے تسلیم کیا کہ حال میں کوئی نیا سروے نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متعدد این جی اوز، میڈیا پر اور عوام کے ساتھ غلط اعداد و شمار شیئر کر رہے ہیں۔
مگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران سینٹ کو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ عام نشہ چرس کا ہے جس کا شکار آبادی کا 3.6 فیصد حصہ ہے۔ نشہ استعمال کرنے والے افراد کی اکثریت 25 سے 39 سال کی عمر میں ہے اور سب سے زیادہ چرس کا استعمال 30 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں دیکھا گیا ہے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چرس کے نشے کے شکار افراد کی تعداد 40 لاکھ ہے جبکہ آٹھ لاکھ 60 ہزار افراد ہیروئن کا شکار ہیں۔ ٹیکے کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کی تعداد چار لاکھ 30 ہزار جبکہ افیون کے نشے کے شکار افراد کی تعداد تین لاکھ 20 ہزار ہے۔
شہریار آفریدی نے اپنے تحریری جواب میں مزید بتایا کہ ان کی وزارت ملک بھر میں متعدد آگاہی مہموں کا انعقاد کر کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے مطابق منشیات کی سپلائی روکنے کے لیے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک بھر میں سرگرم ہیں۔ ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر اے این ایف کے اہلکار تعینات ہیں جو منشیات کی بین الاقوامی سمگلنگ کی روک تھام کے ذمہ دار ہیں۔جبکہ اندرون ملک بھی ایک نیٹ ورک کے ذریعے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام یقینی بنائی جا رہی ہے۔