پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں ڈرگ ٹیسٹ لینے کے فیصلے پر والدین اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت صرف طلبا کو نشانہ بنانے کے بجائے منشیات کی سمگلرز کے خلاف کارروائی کرے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کا ڈرگ ٹیسٹ لینے کا فیصلہ درست ہے لیکن اس فیصلے کا اطلاق صرف تعلیمی اداروں پر نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ وزارت انسداد منشیات نے فیصلہ کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداروں کے اساتذہ، عملے اور طلبہ و طالبات کے ڈرگ ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ وزیر مملکت نے نجی سکولوں کے مالکان کو اعتماد میں لینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
ڈرگ ٹیسٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
گذشتہ سال تعلیمی اداروں میں منشیات سے متعلق مختلف خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
وزیر مملکت شہریار آفریدی نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں میں 75 فیصد طالبات اور 45 فیصد طلبہ آئس کرسٹل کا نشہ کرتے ہیں۔ اسی طرح پولیس نے تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کرنے والے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا۔
ان کے مطابق منشیات فروشی کی روک تھام کے لیے تعلیمی اداروں میں موجود ہر فرد کے لیے ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
شہریار آفریدی نے اسلام آباد کے ایلیٹ سکولوں کے مالکان اور انتظامیہ سے ملاقات کر کے انھیں حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔
اب حکومت اور سکولوں کی انتظامیہ مل کر فیصلہ کریں گے کہ یہ ٹیسٹ کس طرح سے کیے جائیں گے۔
ڈرگ ٹیسٹ کا فیصلہ، فائدہ یا نقصان؟
ماہرین کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کے عادی بچوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن ہر بچے کے نشے کی نوعیت مختلف ہے۔
نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی آسیہ اشرف کے مطابق ’ اس وقت سب سے زیادہ چیلنج آئس کے استعمال کا ہے لیکن شیشے کے ساتھ حشیش اور چرس بھی استعمال ہو رہی ہے۔
کچھ طلبہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دینے کے لیے بھی ادویات کا استعمال کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کر سکیں۔‘
ماہرین کے مطابق ایسے بچے بعد ازاں دیگر منشیات کے عادی بھی ہو جاتے ہیں۔
آسیہ اشرف کہتی ہیں کہ حکومت کے فیصلے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے۔
ان کے مطابق یہ فیصلہ اساتذہ کی عزت نفس مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائے گا۔
تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا ردعمل
حکومت کے اس فیصلے سے متعلق اردو نیوز نے اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہان اور انتظامیہ سے رابطے کیے۔
تعلیمی اداروں کی انتظامیہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کو تو تیار نظر آتی ہے لیکن اس کا موقف یہ بھی ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جی ایس آئی ایس سکول کی ڈائریکٹر قراۃ العین رضوی نے کہا کہ حکومت کا فیصلہ اچھا ہے لیکن حکومت یہ تو بتائے کہ صرف سکول ہی کیوں؟
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ نہیں کہتے کہ خامیاں نہیں ہیں لیکن استاد تو ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تھانے والوں کو کون سمجھائے گا؟ سرکاری اداروں کے ہاسٹلز کی ذمہ داری کون لے گا؟ کیا وہاں منشیات استعمال نہیں ہوتیں؟
ایک استاد فرخ شہزاد کا کہنا ہے کہ ’اساتذہ کو رول ماڈل اور قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے انسداد منشیات مہم میں شامل ہونا چاہیے اور ڈرگ سکریننگ کے عمل سے گزرنا چاہیے۔‘
ایک اور استاد اسد شعیب کہتے ہیں کہ ’ ڈرگ ٹیسٹ کا فیصلہ غیر ضروری ہے، دنیا بھر میں سپلائی لائن کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ منشیات صارف تک نہ پہنچیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ منشیات سمگلرز آزاد ہیں اور جو منشیات استعمال نہیں کرتے ان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘
والدین کا ردعمل
عاصمہ عاصم کے تین بچے اسلام آباد کے ایلیٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت کو اگر منشیات کی روک تھام کرنی ہے تو طلبہ کو نشانہ بنانے کے بجائے پہلے منشیات سمگلرز کے خلاف کارروائی کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ ڈرگ ٹیسٹ خون کے ذریعے لیا جاتا ہے اور کسی بھی فرد کا خون کا ٹیسٹ اس کا انتہائی ذاتی معاملہ ہے، حکومت کو اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ہاں حکومت والدین کو ایک تاریخ بتا دے کہ وہ اس دن تک اپنے بچوں کا ٹیسٹ جمع کرا دیں۔‘
دوسری جانب دو بچوں کے والد منظور احمد اور ان کی اہلیہ رقیہ کا موقف ہے کہ ’پہلے تو حکومت اس حوالے سے والدین، طلبہ اور اساتذہ میں آگاہی پیدا کرے پھر ایک خاص مدت کے بعد ٹیسٹ شروع کیے جائیں اور ٹیسٹ کے نمونے والدین کی موجودگی میں لیے جائیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں