برفباری دیکھنے کے لیے سیاح ہر سال مری کا رخ کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
مجھے بچپن سے مری بہت پسند ہے۔ میرے تعلیمی سلسلے کا آغاز مری سے ہوا۔ ہم بھوربن میں دو سال رہے اور والدین کے ساتھ گھومتے پھرتے خریداری مری سے کرتے تھے۔ میرا سکول مری میں بہت اونچائی پر تھا۔
میں پری نرسری میں جب وہاں داخل ہوئی تو مجھے کلاس تک جاتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسا میں ’کے ٹو‘ سر کر رہی ہوں جبکہ وہ صرف ایک ٹیلا تھا۔ اکثر کلاس میں رو کر ضد کرتی کیونکہ گھر سے ماں سے دور سکول میں ایڈجسٹ ہونے میں بچے کو ٹائم لگتا ہے اور ٹیچر شفقت کرتے ہوئے مجھے میری بہن کی کلاس میں تھوڑی دیر بٹھا دیتی تھیں جو پانچویں کلاس میں تھی اور میں پھر چپ کرجاتی۔
سردی میں سکول کی اسمبلی، برف باری میں کھیلنا، کینٹین سے جوس پینا، چھٹی کے بعد مال روڈ پر آئس کریم کھانا، بھٹے اور پاپ کارن بچپن کی یادیں مری سے جڑی ہوئی ہیں۔ مری اور بھوربن کی سردی اور خوبصورتی آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ بندروں کی شرارتیں اور چھوٹی بہن نے سانپ کو کھلونا سمجھ کر پکڑ لیا سب یاد ہے اور بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔
مری کے لوگ ہمارا بہت خیال کرتے تھے ہم کراچی سے وہاں آئے تھے تو ہر چیز میں ہمارے ہمسائے امی ابو کے ساتھ تعاون کرتے۔ سردی کا موسم بہت سخت ہوتا تھا سہولیات بہت کم تھیں لیکن مری اور بھوربن کے لوگ تب بھی ایک مسکراہٹ کے ساتھ روزمرہ کے کاموں میں مشغول رہتے۔ اپنی مری کی ٹیچر اور آیا بی بی کے شفیق چہرے مجھے آج بھی یاد ہیں۔
پھر دو سال بعد ہم اسلام آباد شفٹ ہوگئے لیکن ہر ہفتے مری ایک دن کے لیے ضرور جاتے۔ وہ ایک دن پورے ہفتے کی تھکان اتار دیتا۔
تاہم گذشتہ کچھ سال سے مری کے خلاف منفی مہم چل رہی تھی میں نے بھی سوچا مری کے لوگوں کو کیا ہوگیا ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ سیاحوں کے ساتھ برا سلوک کریں۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے میں خود مری نہیں جارہی تھی تو کیا حقیقت ہے کیا سچ خود جاننے کا فیصلہ کیا۔ مری کا سفر ویک اینڈ پر کیا تاکہ رش میں آنے والی مشکلات کو دیکھ سکوں۔ ٹریفک زیادہ ہوتی ہے اور مری پر سیاحوں کا بوجھ زیادہ ہے۔
بڑے ہوٹلوں میں تو سب ٹھیک ہوتا ہے لیکن چھوٹے ہوٹلز میں واقعی گرم پانی کی کمی ہوتی ہے اور لائٹ بھی چلی جاتی ہے۔ ریٹ تو ہر سیاحتی مقام پر زیادہ ہوتا ہے لیکن مری کے لوگ برے نہیں۔ کھانا ہوٹل نہیں ڈھابے سے کھایا۔
میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا میٹھے میں کیا ہے تو اس نے کہا باجی صرف چائے ہے۔ میں نے کہا چلیں پھر چائے لے آئیں۔ چائے میں اتنی چینی تھی کہ میں نے بے اختیار کہہ دیا کہ آپ کی وجہ سے چینی کی قلت ہوئی۔
وہ ہنسے لگے اور دوسرا گرما گرم چائے کا کپ لے آئے جس میں چینی نہیں تھی۔ کھانا بہت لذیذ تھا اور بل مناسب۔
مری میں واک کی، سنو مین بنائے، بہن بھائیوں پر برف کے گولے مارے اور خود بھی کھائے، پاپ کارن کھائے، مال روڈ پر کافی بھی پی کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں دیکھا کہ سیاح پریشان ہو۔
اگلے روز خوب برف باری ہوئی مری اور بھوربن کے مقامی لوگ برف میں پھنسے سیاحوں کی مدد کررہے تھے۔ جس جگہ ہمارا قیام تھا وہاں پر ایک مری کا شہری کا بھاگتا ہوا آیا اور گاڑی آگے لانے سے منع کیا۔
میرے پوچھنے پر کہا برف کی وجہ سے بہت پھسلن ہے آگے ہرگز مت آئیں اتنے میں ایک گاڑی سلپ ہوتی ہوتی آئی لیکن اللہ کا شکر ہے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔
متعدد گاڑیوں کو راہگیروں نے دھکا لگا کر چڑھائی پار کروائی۔ ایک گاڑی بہت پرانی تھی اس کو ایک جیپ سے باندھ کر پھسلن والی سڑک پر آگے بڑھایا۔ اگر رسی نہ باندھی جاتی تو گاڑی نے کھائی میں گر جانا تھا۔
جب میرے لیے راستہ صاف ہوا تو میں نے ان کو پیسے دینے کی کوشش کی تو اس شخص نے کہا ’بہن آپ ہمارے شہر کے مہمان ہیں آپ سے پیسے نہیں لے سکتے۔‘
میری آنکھیں بھر آئی کہ اس شخص نے متعدد گاڑیوں کی مدد کی صرف اس لیے کی کہ اس کے شہر کا نام روشن ہو۔ بہت دل کیا کہ اس کے ساتھ تصویر لوں لیکن وہ کام میں مصروف تھا صرف اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ایک دھندلی سے تصویر میرے پاس ہے جو کہ مجھے ہمیشہ اس بات کی یاد دلائے گی کہ مری کے لوگ بہت پر خلوص اور محبت کرنے والے ہیں۔