Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان: غیر پشتون رہنما طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تیار

شرائط میں جمہوری نظام اور بنیادی حقوق کی پاسداری سرفہرست ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کی سیاست کے ایک اہم سٹیک ہولڈر ’شمالی اتحاد‘ نے افغانستان میں استحکام اور طالبان کے ساتھ سیاسی اشتراک کا مسودہ تیار کیا ہے جو طالبان اور امریکہ سمیت دیگر متعلقہ شراکت داروں کو بھی بھجوایا گیا ہے۔
سنہ2001 میں امریکہ کی مدد سے طالبان حکومت کو ختم کرنے والے ’شمالی اتحاد‘ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی اشتراک کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جن میں جمہوری نظام اور بنیادی حقوق کی پاسداری سرفہرست ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات متوقع ہیں جن میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے۔
اردو نیوز کو موصول ہونے والے29 صفحات پر مشتمل مسودے میں شمالی اتحاد نے کہا ہے کہ وہ طالبان  کے ساتھ تمام امور پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم چند معاملات پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان میں جمہوری نظام، قومی انتخابات، اور عوام بالخصوص خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کا مکمل حق حاصل ہو گا۔
شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی خودمختاری کا تحفظ کرتے ہوئے اسے سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
طالبان اور افغان حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ انہی مذاکرات کے دوران طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔

شمالی اتحاد نے حکومت میں طالبان کو اعلیٰ عہدے دینے سے انکار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار

شمالی اتحاد کے مسودے میں دو سال کے لیے عبوری حکومت بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس میں طالبان، مجاہدین گروپ، اور گذشتہ 19 سال میں جنم لینے والی نئی سیاسی قوتیں برابر کی حصہ دار ہوں۔ اس دو سال کے عرصے پر افغانستان کا سیاسی مستقبل منحصر ہوگا۔ اس دوران طالبان اور دیگر جماعتوں کے درمیان اعتماد سازی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، ممکنہ اختلافات کو دور کیا جائے گا، آئینی ترامیم کے لیے لویہ جرگا منعقد کیا جائے گا جس میں ملک بھر سے نمائندگان شرکت کریں گے۔
دو سال کی عبوری حکومت کامیاب ہونے پر افغانستان کے عوام کو اپنے نمائندے چننے کا موقع ملے گا۔ انتخابات کے ذریعے بننے والی مستحکم حکومت پانچ سال کے لیے برسر اقتدار ہوگی۔
شمالی اتحاد نے طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار پر رضامندی تو ظاہر کی ہے لیکن طالبان کو صدر، چیف ایگزیکٹیو یا وزیراعظم کے عہدوں سمیت اہم وزارتیں دینے سے انکار کیا ہے، ان میں خزانہ، خارجہ، دفاع، داخلہ اور حساس ادارہ (این ڈی ایس) کی سربراہی شامل ہے۔

طالبان نے جنگ بندی کے بجائے حملوں میں کمی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

جنگ بندی کا مطالبہ

طالبان کے قیدیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی بلیک لسٹ سے رہنماؤں کے اخراج کے مطالبات کو شمالی اتحاد نے جنگ بندی سے مشروط کیا ہے۔ تاہم مفاہمتی عمل کے دوران مکمل جنگ بندی کے بجائے ’حملوں میں کمی‘ کا مطالبہ کیا ہے جس پر طالبان آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ طالبان رہنماؤں کے سکیورٹی کونسل کی بلیک لسٹ سے اخراج کے بدلے میں طالبان شہری آبادی والے علاقوں میں حملے مکمل طور پر بند کرنے کی یقین دہانی کروائیں گے۔
اگر طالبان جنگ بندی پر عمل درآمد کرتے ہیں تو افغان اور بین الاقومی افواج ان علاقوں میں فوجی کارروائیاں نہیں کریں گی جو طالبان کے قبضے میں ہیں۔ ان علاقوں کے انتظامی امور کی ذمہ داری طالبان کے پاس ہی رہے گی۔  لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی ابہام کو دور کر نے کے لیے طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کا پہلے تعین کیا جائے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ 80 فیصد افغانستان پر ان کا تسلط ہے۔
ان علاقوں میں رہنے والوں کو بنیادی انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر  تحفظ مہیا کرنا طالبان کی ذمہ داری ہو گی۔ جبکہ جو علاقے افغان حکومت اور غیر ملکی افواج کے کنٹرول  میں ہے، ان میں دہشت گردانہ واقعے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا جائے گا۔ مسودے میں واضح کیا گیا ہے کہ مفاہمتی عمل کی کامیابی کے بعد تمام صوبوں پر افغانستان کا قانون ہی لاگو ہوگا۔

شمالی اتحاد کی طالبان جنگجووں کو فوج میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان قیدیوں کی رہائی

اگر طالبان جنگ بندی کے حوالے سے تمام شرائط پر عمل درآمد کرنے پر تیار ہیں تو صرف اس صورت میں طالبان کی اپنے قیدیوں کی رہائی کی شرط پوری کی جائے گی۔ وہ بھی ان قیدیوں کی جن کو عمر قید یا پھانسی کی سزا نہیں سنائی گئی۔  
طالبان جنگجووں کے لیے عام معافی کااعلان کرتے ہوئے انہیں دو حصوں میں غیر مسلح کرنے اور تین سے پانچ ہزار کے درمیان جنگجووں کو افغان فوج میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ساتھ ہی افغان نیشنل آرمی کی خود مختاری کو یقینی بنانے اور اس کو سیاسی مفادات کے لیے نہ استعمال کرنے کے حوالے سے  بھی متنبہ کیا گیا ہے۔

ہمسایہ ممالک کا کردار

مسودے میں اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم سے افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرنے کا کہا گیا ہے۔ عالمی تنظیمیں یقین دہانی کروائیں گی کہ کہ ہمسایہ ممالک افغانستان میں مداخلت، طالبان کی مسلح امداد، ٹریننگ یا رہنمائی نہیں کریں گے۔
پاکستان اور انڈیا کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کوسمجھنا ہوگا کہ پائیدار امن کے لیے افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ضروری ہے۔ مسودے کے مطابق ’افغانستان میں حقیقی امن صرف تب ممکن ہے جب دیگر ممالک افغانستان کی سرزمین کو پراکسی وار یعنی ’در پردہ جنگ‘ کے لیے نہ استعمال کریں۔‘

شیئر: