Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت چین سے طلبہ کو لانے کی تاریخ دے، والدین

کورونا وائرس سامنے آنے کے بعد چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کے والدین نے وزیراعظم کے معاونین خصوصی ظفر مرزا اور زلفی بخاری کی بات سننے سے انکار کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت سے طلبہ کو واپس لانے کی تاریخ دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان کے مطابق بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر حکومت نے ملک بھر سے چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کے والدین کو مطمئن کرنے کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا، لیکن والدین نے حکومتی نمائندوں کی ایک نہ سنی اور بریفنگ کے آغاز سے ہی احتجاج شروع کر دیا۔
بریفنگ کے آغاز میں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے والدین سے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے سامنے جتنی دلیلیں بھی رکھی جائیں ہم آپ کو مطمئن نہیں کر پائیں گے۔‘

 

اس بریفنگ میں ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعظم کے معاون خصوصی ظفر مرزا نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ وہ حکومتی اقدامات سے والدین کو بریف کر رہے تھے کہ اس دوران ایک طالب علم کے والد کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی ایک بات نہیں سنیں گے، آپ نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ حکومت چین سے طلبہ کو واپس نہیں لائے گی تو آپ سے بات کرنے کا فائدہ کیا؟‘
اس کے بعد تمام والدین اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور ’ہمارے بچے واپس لاؤ‘ کے نعرہ لگانے لگے۔
اس بریفنگ میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے والدین شرکت کر رہے تھے اور کچھ والدین حکومت پاکستان کے چین میں پھنسے طلبہ کو واپس نہ لانے کے فیصلہ سننے کے بعد بیرون ملک سے بھی بریفنگ میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔
احتجاج کے دوران والدین سٹیج پر پہنچ گئے اور معاونین خصوصی کا گھیراؤ کر لیا۔ اس دوران انتظامیہ نے صورت حال کو بہتر کرنے کی کوششں کی لیکن والدین حکومتی رہنماؤں کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔

طلبہ کے والدین نے ڈاکٹر ظفر مرزا کی بات سننے سے انکار کر دیا

والدین کی جانب سے احتجاج کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کھڑے ہو کر بات کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ جس پر والدین کی جانب سے پوچھا گیا کہ ’باقی چھوڑیں آپ طلبہ کو واپس لانے کی تاریخ بتائیں‘ ظفر مرزا کے اس جواب کہ ہم تاریخ نہیں بتا سکتے، پر والدین مزید بھڑک گئے اور انہوں نے مزید شدت سے  پوچھا ’کیوں نہیں بتا سکتے، ایک مہینے سے آپ تاریخ نہیں بتا رہے۔‘
وزارت خارجہ کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین کے شہر ووہان میں دو افسران موجود ہیں جو کہ پاکستانی طلبہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور دنیا کے کسی ملک میں بھی سب سے پہلے پاکستان نے اپنے افسران چین کے شہر ووہان بھیجے ہیں۔

والدین کا کہنا تھا کہ بچوں کے پاس کھانے کا سامان بھی اب ختم ہو چکا ہے. فوٹو: اردو نیوز

وزارت خارجہ کے حکام ابھی بریفنگ دے ہی رہے تھے کہ احتجاج شدت اختیار کر گیا۔ والدین نے الزام عائد کیا کہ ’وزارت خارجہ کے حکام جھوٹ بول رہے ہیں، ووہان میں دفتر خارجہ کا کوئی افسر موجود نہیں۔‘
والدین کا کہنا تھا کہ بچوں کے پاس کھانے کا سامان بھی اب ختم ہو چکا ہے اور وہ اپنے کمروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ’ہمیں رات کو نیند نہیں آتی ہم اپنے بچوں کے لیے بہت پریشان ہیں۔‘
والدین نے کہا کہ ‘ہمیں حوصلہ تھا لیکن اب کورونا وائرس کے مریض یونیورسٹی کی قریبی عمارتوں اور ہاسٹلز میں شفٹ کر دیے گئے ہیں جس سے تشویش بڑھ گئی ہے۔‘
انتظامیہ کی جانب سے مسلسل صورت حال قابو رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن احتجاج ایک گھنٹے سے بھی زیادہ طویل ہو گیا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا جانے لگے تو والدین نے شیم شیم کے نعرے لگا دیے (فوٹو: اردو نیوز)

اس دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی ظفر مرزا اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’میں آپ یقین کو دلاتا ہوں کہ میں اور زلفی بخاری آپ کے جذبات وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے اور جو بھی فیصلہ ہوگا ہم آپ کو آگاہ کریں گے۔‘
اس یقین دہانی کے بعد دونوں معاونین خصوصی بریفنگ سے روانہ ہوگئے۔
والدین نے حکومتی نمائندوں کے جانے پر ’شیم شیم‘  کے نعرے لگائے۔
والدین کا احتجاج یہاں ختم نہ ہوا بلکہ باہر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ احتجاج کے دوران مارگلہ روڈ پر نیول ہیڈکوارٹرز کے باہر دھرنا دے دیا اور سڑک کو دونوں اطراف سے بند کر دیا۔

والدین نے مطالبہ دھرایا کہ حکومت بچوں کو وطن واپس لانے کی تاریخ دے۔ فوٹو: اردو نیوز

احتجاج کے دوران ضلعی انتظامیہ اور وزارت صحت کے حکام نے والدین کے ساتھ مذاکرات کیے۔ مذاکرات میں ڈی جی ہیلتھ نے والدین کو یقین دہانی کروائی کہ معاملہ جمعرات کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔
والدین نے احتجاج ختم نہ کیا اور انہوں نے مطالبہ دھرایا کہ حکومت بچوں کو وطن واپس لانے کی تاریخ دے۔
بعدازاں اندھیرا ہونے کے باعث تمام والدین نے فیصلہ کیا کہ وہ جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر اکٹھے ہوں گے جس کے بعد وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں۔

شیئر: