Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریض کی شناخت چھپانا کیوں ضروری؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافی پہلے خود کو محفوظ بنائیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سندھ کے محکمہ صحت نے نہ صرف متاثرہ مریض بلکہ اس کے خاندان کی شناخت بھی ظاہر کر دی جسے مقامی میڈیا نے رپورٹ بھی کیا۔ 
میڈیا پر معلومات آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے مریض کا نام، اس کی سفری معلومات اور گھر کا پتہ تک شیئر کر دیا۔
سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین نے مریض کا نام لکھ کر ٹویٹ کیے جس سے نہ صرف مریض کے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہوئی بلکہ ان کے جاننے والے، ساتھ سفر کرنے والے اور کام کرنے والے تمام افراد میں تشویش فطری ہے۔ 
اس سے قبل جب چین میں چار پاکستانی طلبہ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ ان طلبہ کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے اور میڈیا سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی شناخت جاننے کی کوشش نہ کرے اور پتہ چل بھی جائے تو اسے رپورٹ نہ کیا جائے۔ اس پر عمل درآمد ہوا اور پاکستان میں خوف و ہراس پھیلنے سے روک دیا گیا۔
کورونا وائرس کی رپورٹنگ کیسے کی جائے؟
ویسے تو صحافت کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جس پر عمل در آمد کرنا ہر صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن پاکستان میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں اکثر و بیشتر اس ضابطہ اخلاق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جس کی وجہ سے کئی بار منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں عالمی ادارہ صحت کے معاون ڈاکٹر ڈاکٹر میچل لکویا نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود کو محفوظ بنائیں۔ ماسک پہنیں، ہاتھ دھوئیں اور ان تمام ہدایات پر عمل کریں جس کے بارے میں وہ لوگوں کو بتا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی رپورٹرز نے ماضی میں کئی مواقع پر مشکل حالات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اب بھی ایسی رپورٹنگ بالکل نہیں ہونی چاہیے جس سے خوف و ہراس پھیلے۔‘

حکومت کے مطابق پاکستان کے مختلف حصوں میں حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

مریض کی پرائیویسی کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹرز کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی مریض کی بیماری کو خفیہ رکھنا ڈاکٹر اور مریض کے درمیان معاشرتی اور اخلاقی معاہدہ ہے۔ کسی بھی مریض کی بیماری سے متعلق معلومات اس کی مرضی کے بغیر پبلک کرنا تو دور کی بات اس کے اہل خانہ کو بھی بتانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر میچل لکویا نے کہا کہ ’مریض کے بارے میں معلومات کو خفیہ رکھنا ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میڈیا اور ڈاکٹرز بھی مریضوں کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھیں۔ اس سے معاشرے میں متعلقہ مریض کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچایا جا سکے گا۔‘

ڈاکٹر ظفر مرزا کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کو روکنے کے لیے تیاری مکمل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی حوالے سے محکمہ صحت پنجاب میں تعینات ڈاکٹر محمد جمال نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ‘کسی بھی مریض کی پرائیویسی ڈاکٹر کے لیے سب سے اہم ہوتی ہے۔ کسی بھی فرد کی بیماری کسی دوسرے فرد کو بتانے سے  صرف مریض پر ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کورونا کے مریضوں میں شرح اموات صرف دو فیصد ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں مریض کی شناخت ظاہر کرنے سے اس کا خاندان، رشتے دار، محلے دار سبھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ مقامی روایات کی وجہ سے اس مرض کو پھیلنے سے روکنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے زیادہ ضروری ہے کہ جس کسی میں کورونا کی تشخیص ہو اس کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: