پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سندھ کے محکمہ صحت نے نہ صرف متاثرہ مریض بلکہ اس کے خاندان کی شناخت بھی ظاہر کر دی جسے مقامی میڈیا نے رپورٹ بھی کیا۔
میڈیا پر معلومات آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے مریض کا نام، اس کی سفری معلومات اور گھر کا پتہ تک شیئر کر دیا۔
سینکڑوں سوشل میڈیا صارفین نے مریض کا نام لکھ کر ٹویٹ کیے جس سے نہ صرف مریض کے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہوئی بلکہ ان کے جاننے والے، ساتھ سفر کرنے والے اور کام کرنے والے تمام افراد میں تشویش فطری ہے۔
مزید پڑھیں
-
کورونا وائرس: سوشل میڈیا پر احتیاطی تدابیر میں کتنا سچ؟Node ID: 461636
-
کورونا سے بچاؤ، ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیرNode ID: 461641
-
کورونا سے بچاؤ کے لیے ٹاسک فورس قائمNode ID: 461661
اس سے قبل جب چین میں چار پاکستانی طلبہ میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ ان طلبہ کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے اور میڈیا سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی شناخت جاننے کی کوشش نہ کرے اور پتہ چل بھی جائے تو اسے رپورٹ نہ کیا جائے۔ اس پر عمل درآمد ہوا اور پاکستان میں خوف و ہراس پھیلنے سے روک دیا گیا۔
کورونا وائرس کی رپورٹنگ کیسے کی جائے؟
ویسے تو صحافت کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جس پر عمل در آمد کرنا ہر صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن پاکستان میں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں اکثر و بیشتر اس ضابطہ اخلاق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جس کی وجہ سے کئی بار منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں عالمی ادارہ صحت کے معاون ڈاکٹر ڈاکٹر میچل لکویا نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی رپورٹنگ کرتے وقت صحافیوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خود کو محفوظ بنائیں۔ ماسک پہنیں، ہاتھ دھوئیں اور ان تمام ہدایات پر عمل کریں جس کے بارے میں وہ لوگوں کو بتا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی رپورٹرز نے ماضی میں کئی مواقع پر مشکل حالات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اب بھی ایسی رپورٹنگ بالکل نہیں ہونی چاہیے جس سے خوف و ہراس پھیلے۔‘
مریض کی پرائیویسی کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹرز کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی بھی مریض کی بیماری کو خفیہ رکھنا ڈاکٹر اور مریض کے درمیان معاشرتی اور اخلاقی معاہدہ ہے۔ کسی بھی مریض کی بیماری سے متعلق معلومات اس کی مرضی کے بغیر پبلک کرنا تو دور کی بات اس کے اہل خانہ کو بھی بتانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر میچل لکویا نے کہا کہ ’مریض کے بارے میں معلومات کو خفیہ رکھنا ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میڈیا اور ڈاکٹرز بھی مریضوں کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھیں۔ اس سے معاشرے میں متعلقہ مریض کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچایا جا سکے گا۔‘
اسی حوالے سے محکمہ صحت پنجاب میں تعینات ڈاکٹر محمد جمال نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ‘کسی بھی مریض کی پرائیویسی ڈاکٹر کے لیے سب سے اہم ہوتی ہے۔ کسی بھی فرد کی بیماری کسی دوسرے فرد کو بتانے سے صرف مریض پر ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کورونا کے مریضوں میں شرح اموات صرف دو فیصد ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں مریض کی شناخت ظاہر کرنے سے اس کا خاندان، رشتے دار، محلے دار سبھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ مقامی روایات کی وجہ سے اس مرض کو پھیلنے سے روکنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے زیادہ ضروری ہے کہ جس کسی میں کورونا کی تشخیص ہو اس کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں