کچھ واقعات انسانی ذہن پر ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ وقت بھی ان کا اثر کم نہیں کر پاتا۔ مثلاً میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بخوبی یاد ہوگا کہ وہ اس لمحے میں کیا کر رہے تھے جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے دونوں طیارے ٹکرانے کی خبر ان تک پہنچی یا جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو اس ایک پل میں ہم کس کیفیت سے گزر رہے تھے۔
انسانی دماغ چونکا دینے والے واقعات کی خبر سے جڑی کیفیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ اگر ماضی قریب میں چلے جائیں تو وہ لمحہ بھی ہمیں کبھی نہیں بھولے گا جب یہ خبر ملی کہ پاکستان نے انڈیا کے طیارے مار گرائے ہیں۔
لائیو نیوز چینلز کی کوریج کی وجہ سے، ہماری نسل کو جنگ کے اس قدر قریب ہونے کا دھڑکا شاید اس سے پہلے کبھی نہیں لگا تھا۔ ساتھ میں ایک شدت احساس بھی کہ کس طرح ایک ارب سے زیادہ لوگوں کا مقدر اس خطے کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ریفارمز کا موقع ضائع نہ ہوجائے
Node ID: 460916
-
پولیس کے دباؤ پر ترانہ گانے والا انڈین مسلمان چل بسا
Node ID: 462151
-
انڈیا میں ایک بار پھر ’غداروں کو گولی مارو‘ کی گونج
Node ID: 462376
انڈیا میں اقتدار پر براجمان ایک شخص نریندر مودی کے ذہنی انتشار کی وجہ سے 26 اور 27 فروری کی رات برصغیر کے باسیوں اور ان سے منسلک دنیا بھر میں بسنے والے تارکین وطن پر بڑی بھاری گزری۔ گنجان آباد شہروں کو تباہ کرنے والے ہتھیار لانچ ہونے کو تیار تھے۔ لاکھوں لوگوں کی قسمت کے فیصلے میں کچھ بٹن دبانے کی دیر تھی۔
دنیا کی ثالثی کی کوششوں سے وہ گھڑی وقتی طور پر ٹل گئی۔ مودی الیکشن جیت گئے اور نفرت کی فصل کی آبیاری کا کام جاری رہا۔ پہلے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باسیوں کے حقوق غصب ہوئے اور پھر کچھ ماہ بعد انڈیا میں سی اے اے ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔ یوں لاکھوں مسلمان ایک ہی لمحے میں اپنے ہی ملک میں غیر ہو گئے ہیں۔ نئی دہلی جل رہی ہے اور سیکولرزم کے نعروں کی قلعی کھلتی ہی چلی جا رہی ہے۔
گذشتہ برس فروری میں ایٹمی جنگ کے امکانات اتنے قریب سے دیکھنے کے پورے ایک سال بعد یہ خطہ ایک عجیب سی نئی صورتحال سے دوچار ہے۔ چین سے ابھرنے والے کورونا وائرس نے دنیا کو تگنی کا ناچ نچوا دیا ہے۔ انڈیا کے بعد اب پاکستان میں بھی یہ وائرس انتظامیہ کی ناک سے لکیریں کھنچوا رہا ہے۔
کورونا وائرس سے پھلینے والی تشویش یقینا پریشان کن ہے لیکن ایک وائرس ایسا بھی ہے جو انسانی ذہن میں کسی وقت جنم لیتا ہے، پنپتا رہتا ہے اور اگر حالات سازگار ہوں تو اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ کسی دوسرے کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتا۔۔۔ اور وہ ہے تعصب کا وائرس۔
کورونا وائرس کے بارے میں جب تفصیل سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی اوسط عمر ساٹھ سال اور اس سے اوپر کے ان لوگوں کی ہے جو پہلے سے ہی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ نیز یہ بھی کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کو اس سے زیادہ خطرہ ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ دوسری طرف تعصب کے وائرس کے لیے عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں۔ اعداد و شمار دیکھیں تو دنیا میں کورونا کے 98 فیصد مریض بھلے چنگے ہو جاتے ہیں لیکن تعصب کا وائرس، اپنے شکار کو اس طرح گھیرتا ہے کہ وہ سنبھل ہی نہیں پاتا۔
ماہرین کے مطابق ایک دفعہ کورونا وائرس جسم پر حملہ آور ہو تو چند دنوں کے بعد کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر تعصب کا وائرس حملہ آور ہونے کے بعد توانا تر ہوتا جاتا ہے، اس قدر توانا کہ چاہے توایک ہی دن میں دہلی میں 50 جانیں لے لیتا ہے۔ علاج دونوں کا ضروری ہے، کورونا کا بھی اور یقینا اس سے کئی گنا بڑھ کر تعصب کا بھی مگر انسانیت کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔

کورونا وائرس جس تیزی سے پھیلا، اتنی ہی تندہی سے دنیا بھر کے قابل دماغ سر جوڑ کر اس کا علاج ڈھونڈنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جلد نہیں تو تھوڑی تاخیر سے ہی سہی اس کا توڑ مل جائے گا۔
تعصب البتہ زیادہ خطرناک اور زیادہ سخت جان وائرس ہے۔ ایک طرف کرونا سے لوگوں کی نیندیں اڑی ہیں اور دوسری طرف نفرت اور تعصب کے وائرس کے علاج کے لیے کہیں کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
ایک طرح کا وائرس خطرہ اور دوسری طرح کا وائرس نارمل نہیں ہو سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ انسانیت کرونا کو خطرہ سمجھتی ہے مگر تعصب تو دنیا کے امن و سلامتی کے لیے اس سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ کورونا سے اگر سینکڑوں جانیں گئی ہیں تو تعصب تو نہ جانے کتنی صدیوں سے انسانیت کو کھائے چلا جا رہا ہے۔
