سول سروس اصلاحات کی آخری دفعہ کوشش پرویز مشرف کے دور میں ہوئی۔ فوٹو اے ایف پی
کچھ روز پہلے تحریک انصاف کا منشور دوبارہ کھنگالنے کا موقع ملا۔ شاید کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ پی ٹی آئی کے منشور میں سول سروسز ریفارمز کے بارے میں ذکر موجود ہے۔
ان اصلاحات کا وعدہ بنیادی تین نکات پر مشتمل ہے۔ پہلا نکتہ خان صاحب کا پسندیدہ جملہ کہ ’رائٹ مین فار دی رائٹ جاب‘ یعنی کہ صحیح افسر کا صحیح جگہ انتخاب کیا جائے گا جو سیاسی مداخلت سے پاک ہوگا۔ اس کے ساتھ تنخواہوں کا توازن قائم کیا جا ئے گا اور شفافیت یقینی بنائی جائے گی۔
دوسرا نکتہ ہے کہ سروس میں آگے جا کر پیشہ ور یا سپیشلائزڈ افراد کی انٹری کے لیے گنجائش پیدا کی جائے گی اور تیسرا نکتہ یہ کہ پرفارمنس کی کڑی جانچ کی جائے گی اور دو دفعہ ترقی نہ پا سکنے والے افسران کو جبری ریٹائرڈ کر دیا جائے گا۔
منشور کے علاوہ بھی عمران خان صاحب کی بیوروکریسی میں کرپشن، نااہلی اور سیاسی مداخلت کے بارے میں کئی ارشادات ریکارڈ پر ہیں۔
گورننس اور انتظامی امور کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی نوکر شاہی کسی بھی طرح ایک جدید ملک کے لیے ناکافی ہے۔ لیکن یہ ریفارمز ایسا بھاری پتھر ہے جسے ہر کوئی صرف ہاتھ لگا کرچھوڑ دیتا ہے۔ سول سروس اصلاحات کی آخری دفعہ سنجیدہ لیکن ناکام کوشش پرویز مشرف کےابتدائی دور میں ہوئی اور دو دہائیوں بعد آج بھی نوکر شاہی اپنی پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔
پی ٹی آئی نے چونکہ اقتدار سے پہلے ہی اس کا ادراک کرتے ہوئے بیورو کریسی میں انقلابی اصلاحات کااعلان کر رکھا تھا تو گمان یہی تھا کہ اقتدار کی تیاری میں اتنا ہوم ورک ضرور ہو گا کہ اصلاحات سے متعلق تجاویز الیکشن سے پہلے ہی تیار ہوں گی لیکن یہ گمان سچ ثابت نہ ہوا۔
تاہم حکومت کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ 18 ماہ کی عرق ریزی کے بعد سول سروسز ریفارمز کا مجوزہ مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ اصلاحات کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کا موازنہ ان کے اپنے ہی ماضی کے بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی اقدام کا پیمانہ ماضی میں دیے گئے خان صاحب کے بیانات ہی ہیں۔
اصلاحات کا جو نیا مسودہ حکومت کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے، اگر اس دستاویز کا بغور جائزہ لیں تو یہ پیکج بنیادی طور پر چار حصوں پر مشتمل ہے جس میں سول سروس کی ریکروٹمنٹ، پروموشن، پرفارمنس اور ریٹائرمنٹ کا احاطہ کیا گیا ہے۔
سرکاری اداروں میں سب سے بڑا مسئلہ پیشہ ورانہ اہلیت کا فقدان ہے۔ عام اہلیت کے افسر وزارت خزانہ سے خوراک تک اور ماحولیات سے صحت کی وزارت میں تعینات ہوتے ہیں۔ نئے مسودے کے مطابق اب مخصوص وزارتوں میں نجی شعبے سے ماہرین کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس تجویز پر بیوروکریسی کے اندر سے ہی شدید مزاحمت سامنے آئے گی بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ آ چکی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اس کی ایک جھلک تانیہ ادریس کی طرح کے ماہرین کی ہے جو باہر سے آئے ہیں۔ اندرونی طور پر انہیں شدید چیلنجز کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سپیشلائزڈ لوگوں کو نظام قبول کرنے سے انکاری ہے اور ان کی راہ میں سخت روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
افسران کی پروموشن یا ترقی کے لیے بورڈ کی صوابدید میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس پر کچھ تشویش ہے کیونکہ عام خیال یہ ہے اعلیٰ افسران کے پاس بہت زیادہ اختیارات آ جائیں گے تو سیاسی مداخلت بھی بڑھے گے اور سیاسی اثر رسوخ نہ رکھنے والے افسران کی ترقی مشکل ہو جائے گی۔
پرفارمنس پر نئی اصلاحات کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ تمام ادارے پابند ہوں گے اپنےملازمین کو کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کریں۔
اچھی اور بری کارکردگی کے افسران کی فہرست بنانا یقینا ایک منفرد اور کارآمد قدم ہے مگر اس کو خصوصی فالو اپ کی ضروررت ہوگی کیونکہ نوکر شاہی کسی بھی ایسے قدم کو ناکام بنانے میں خصوصی مہارت رکھتی ہے جس میں ان سے جواب طلبی کی جائے۔
مسودے میں ریٹائرمنٹ کے شعبے پر بھی خاص توجہ دی گئی تا کہ نااہل لوگوں کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ دے کر فارغ کیا جا سکے جو کہ تحریک انصاف کے منشور کے عین مطابق ہے۔
وہ سرکاری ملازم 20 سال پورے کر چکے ہیں اور ان کی کارگردگی تسلی بخش نہیں ان کو جبری ریٹائر کر دیا جائےگا۔ اس بارے میں تفصیلی قانون سازی ابھی زیر غور ہے۔
بیوروکریسی میں نئے خون کے آنے کے لیے یہ یقیناً ایک ضروری قدم ہوگا مگر اس کو بہت سی قانونی رکاوٹیں سامنے آئے گی۔ حکومت کو اس چیلنج کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا کہ قوی امکان ہے تقریباً تمام فارغ شدہ ملازم عدالتوں کا رخ کریں گے۔
سول سروس اصلاحات کے اس سفر کو اگر بیان کیا جائے تو اس کے لیے انگریزی جملے too little too late کا سہارا لینا پڑے گا ۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی کہ پوری سول سروس کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جا ئے گا۔ لیکن اب اسی پرانی عمارت پر نیا رنگ و روغن کر کے اسے اصلاحات کا نام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک اور نقطہ جو قابل غور ہے کہ صوبے جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے وہاں پر اصلاحات کا کوئی ذکر نہیں۔ دو صوبے جہاں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں مقامی حکومتوں کا نظام یا تو نامکمل ہےاور یا ہے ہی نہیں ۔ بیورو کریسی نے بھی حسب معمول حکومت کو کاغذی کاروائی میں ہی الجھایا ہواہے اور اپنے اوپر کسی چیکس اور بیلینس کے بجائے حکومت کی اپنی کارگردگی کو ہی سوالیہ نشان بنادیا ہے۔
حکومت اپنے دو سال مکمل کر نے کے بعد survivalist mode میں آچکی ہے جہاں اب معاملہ سیاسی بقا کا ہے۔ اصلاحات پر عمل درآمد کروانا ایک کٹھن مرحلہ ہوگا۔ حکومت منصوبے بنانے میں تیز تر اور عمل کرنے میں کنفیوزڈ ہے۔ حکومت کو اس کنفیوژن سے نکلنا ہوگا ورنہ سول سروس اصلاحات کا کہیں ایک اور موقع ضائع نہ ہو جائے۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں