Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواجہ برادران کی ضمانت منظور

نیب نے خواجہ برادران کو نومبر 2018 میں گرفتار کیا تھا۔ اور وہ 16 ماہ تک تحویل میں رہے (فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں ٹرائل کورٹ میں 30، 30 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
دوران سماعت نیب کے ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل کی جانب سے تسلی بخش جوابات نہ ملنے پر سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’نیب کی یا تو نیب خراب ہے یا اہلیت کا فقدان ہے۔ دونوں صورتحال میں معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ نیب کے پاس ضمانت خارج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔‘
منگل کو جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’نیب نے 7 نومبر 2018 کو خواجہ برادران کو گرفتار کیا۔ اس سے قبل وہ کبھی بھی نیب کی طلبی پرغیرحاضر نہیں ہوئے نہ ہی کبھی کوئی دستاویزپیش کرنے سے انکارکیا۔30 مئی 2019 کو چھ ماہ گرفتاری کے بعد ریفرنس داخل کیا گیا۔
انہوں نے بتایاکہ 4 سمتبر2019 کوفرد جرم عائد کی گئی۔  نیب نے 122گواہ مقرر کیے جبکہ صرف پانچ گواہوں کےبیانات قلمبند ہوئے۔
وکیل امجد پرویزنے اپنے دلائل میں مزید بتایا کہ ’چیئرمین نیب نے ایک گواہ قیصر امین بٹ کو 2 دفعہ معافی دی۔ پہلی معافی کے بعد قیصر امین بٹ نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا۔
چیئرمین نیب نے بیان پسند نہ آنے پر معافی واپس لے لی۔ قیصر بٹ پلی بارگین کرنا چاہتے تھے لیکن نیب نے ان کی پلی بارگین کی درخواست مسترد کر دی کیونکہ نیب کا مقصد صرف خواجہ برادران کے خلاف کیس بنانا تھا۔‘

عدالت نے 30، 30 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض خواجہ برادران کی  ضمانت منظور کر لی (فوٹو: اے ایف پی)

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ’ نیب کی جانب سے 68 افراد کو پلاٹ نہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پیراگون نے نیب کو بتایا کہ 68 سے 62 افراد کے کیس سیٹلڈ کر دیےہیں۔ نیب نے 62 افراد کو نوٹس دیا جو پیش ہوئے۔ متاثرین نے نیب کو کہا کہ ان کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔‘
نیب کی جانب سے ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے۔ اپنے جوابی دلائل میں انھوں نے استدعا کی کہ عدالت ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو چھ ماہ میں ریفرنس کا فیصلہ کرنےکا حکم جاری کرے۔
عدالت نے نیب پروسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا ان کے پاس درخواست ضمانت منسوخی کی کوئی ایک قانونی وجہ موجود ہے؟ جس پر نیب وکیل نے کہا کہ یہ چیٹنگ پبلک ایٹ لارج کا مقدمہ ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ 68 میں سے 62 افراد نے نے درخواست واپس لے لی تو یہ چیٹنگ پبلک ایٹ لارج کا مقدمہ کیسے ہوا؟

نیب نے خواجہ برادران کو نومبر 2018 میں گرفتار کیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

نیب وکیل نے بتایا کہ اس مقدمے میں سرکاری زمین پر قبضے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’خواجہ برادارن کے اکاونٹس میں پیسے آئے ہیں تو اس میں غیرقانونی کیا ہے؟ اگر کوئی غیرقانونی کام ہوا ہے تو نیب دکھائے۔‘
نیب وکیل نے موقف اپنایا کہ پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی غیرقانونی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ جب 2006 میں ٹی ایم اے نے منظوری دے دی اور2013 میں ایل ڈی اے کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا تو اس میں سوسائٹی کی طرف سے غیر قانونی کیا ہے؟‘
سپریم کورٹ نے 30، 30 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ ضمانتی مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرائے جائیں۔
نیب نے خواجہ برادران کو نومبر 2018 میں گرفتار کیا تھا۔ اور وہ 16 ماہ تک تحویل میں رہے۔

شیئر: