Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں احتساب کتنے ادارے کرتے ہیں؟

وکیل لطیف کھوسہ کے مطابق نیب اپنے قانون کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
احتساب اور کرپشن کے خلاف تحقیقات پاکستان میں کسی بھی حکومت کے بڑے نعرے ہوتے ہیں۔
جب بھی حکومتی سطح پر بدعنوانی کے خلاف مہم کا آغاز کیا جاتا ہے تو متعدد سرکاری ادارے تحقیقات کے لیے سینکڑوں کیس کھول دیتے ہیں۔
اس ماحول میں سمجھ نہیں آتی کہ کیا احتساب یا کرپشن الزامات کے تحت تحقیقات کا اختیار تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہے یا یہ کام صرف مخصوص ادارے ہی کر سکتے ہیں۔
سال 2000 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا تو اس مقصد کے لیے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نیب کے قانون میں اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ادارے میں زیر تفتیش مقدمے کو احتساب عدالت میں منتقل کرسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کا تاثر ابھرتا ہے تو نیب کا اس میں نمایاں کردار ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود نیب کے علاوہ، ایف آئی اے، محکمہ اینٹی کرپشن، ایف بی آر، آئی بی اور اب اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسے ادارے بھی احتساب کے لیے کسی نہ کسی انداز میں سرگرم ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ناقدین اس کو احتساب کم اور مخاصمانہ کارروائی زیادہ قرار دیتے ہیں۔

مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا تو نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اپوزیشن جماعتیں احتساب کے خلاف ایک بڑا اعتراض یہ کرتی ہیں کہ جب ایک ادارہ کسی ایک خاص کیس کی تفتیش کر رہا ہوتا ہے تو پھر دوسرے ادارے اس میں کیوں شامل ہوتے ہیں؟
ان کا موقف ہوتا ہے کہ ایک ہی کیس میں مختلف اداروں کے سامنے تفتیش کا سامنا ہوتا ہے۔
اگر نیب اور دیگر اداروں کے کام کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو نیب آرڈینیس کے مطابق نیب کا بنیادی کام لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری اور کرپشن کا خاتمہ ہے۔ جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے ) بھی انسانی سمگلنگ اور الیکٹرونک و سائبر کرائمز کے ساتھ ساتھ مالیاتی جرائم اور کرپشن کے خلاف بھی کارروائیاں اور تحقیقات کرتا ہے۔
اسی طرح صوبوں میں قائم انسداد بدعنوانی کے محکمے اپنے اپنے علاقوں میں کرپشن کے خلاف کارروائیاں کررہے ہوتے ہیں۔

انٹیلی جنس بیورو بھی تحقیقات میں مدد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان تمام اداروں کی موجودگی میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)  ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے خلاف اپنے طور پر الگ سے کارروائی کرتا ہے۔
وفاقی حکومت کے تحت کام کرنے والا سراغ رساں ادارہ انٹیلی جنس بیورو ان سب اداروں کے ساتھ ایک اضافی ادارہ ہے جو کسی بھی وقت تحقیقات میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت، جس کے منشور میں احتساب کو سب سے بنیادی اور نمایاں اہمیت حاصل تھی نے ان سب اداروں کی موجودگی میں احتساب کا ایک نیا ادارہ ایسٹ ریکوری یونٹ تشکیل دیا ہے۔

ایسٹ ریکوری یونٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں تحقیقات کی۔ فائل فوٹو

ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد منی لانڈرنگ کے حوالے سے بیرون ملک جاری مقدمات میں نیب، سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور دیگر اداروں کی معاونت کرنا ہے۔
 لیکن سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف داخل کیے گئے ایک ریفرنس کی کارروائی کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے ان کے خاندان کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے اپنے طور پر تحقیقات کی ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بد عنوانی کے خلاف کام کرنے والے پہلے سے موجود متعدد اداروں کے بعد اب ایسٹ ریکوری یونٹ بھی ان معاملات کی الگ سے چھان بین کرنے والا ایک نیا سیٹ اپ بن گیا ہے۔
اس الجھن کے بارے میں جب نیب کے ساتھ کام کرنے والے سابق پروسیکیوٹر شہزاد انور بھٹی سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ نیب کا ایف آئی اے کے ایک ونگ کے ساتھ اختیارات کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
’ایف آئی اے کا ایک اکانومی کرائم ونگ ہے جو اینٹی کرپشن کا کام کرتا ہے۔ نیب کا کام بھی اینٹی کرپشن ہی ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے قانون میں سزاوں کا فرق ہے۔ نیب مقدمات میں ریکوری، نااہلی، سزا اور نوکری سے ہاتھ دھونے جیسی سزائیں ہیں جبکہ ایف آئی اے کے قانون میں قید ہی کی سزا موجود ہے۔‘

بدعنوانی کے خلاف مہم میں متعدد سرکاری ادارے کیس کھول دیتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق پروسیکیوٹر شہزاد انور کا کہنا تھا کہ نیب کا قانون کرپشن کے خلاف کام کرنے والے دیگر ادروں میں سب سے بالادست ہے۔
’نیب کسی بھی کیس کو اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ نیب خود چھوٹے کیسز ایف آئی اے اور صوبائی اینٹی کرپشن کو بھیج دیتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی بڑا کیس ہو تو اس کو اپنے پاس منتقل کر سکتا ہے۔ جیسے جعلی بینک اکاؤنٹس کا کیس ایف آئی اے سے نیب کو منتقل ہوا۔‘
تاہم معروف وکیل لطیف کھوسہ کے مطابق نیب اس قانون کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔
’بدقسمتی سے نیب پولیٹیکل انجینئرنگ، سیاسی انتقام اور سلیکٹڈ احتساب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک کیس بھی میرٹ پر نیب کے پاس منتقل نہیں ہوا۔ میں گنوا سکتا ہوں کہ متعدد کیسز جو نیب کو منتقل ہوئے ان سبھی سے آپ کو سیاسی بو آئے گی۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: