گزشتہ گرمیوں کی بات ہے، ایک تنظیم نے مجھے لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا، لیکچر کا موضوع تھا ’جدید دور کے چیلنجز اور آج کا انسان۔‘
منتظمین کا خیال تھا کہ میں شاید انہیں بتاؤں گا کہ اکیسویں صدی کے انسان کا المیہ اداسی اور ڈپریشن ہے اور اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود جدید دور کا انسان خوش اور مطمئن نہیں کیونکہ سچی خوشی اور آسودگی پیسے سے نہیں بلکہ آتما کی شانتی سے ملتی ہے وغیرہ۔
یعنی وہی مقبول عام باتیں جو آج کے دور کا جدید ذہن سننا چاہتا ہے تاکہ اپنے اوپر سے مادہ پرستی کا لیبل اتار کر ثابت کر سکے کہ deep down وہ بہت روحانیت پسند ہے۔
مزید پڑھیں
-
زندہ رہنے کے تین فارمولےNode ID: 440956
-
آپ کا پسندیدہ کالم نگار کون ہے؟Node ID: 453551
-
ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ جاؤNode ID: 465731
تاہم اپنا روایتی سڑیل پن برقرار رکھتے ہوئے میں نے اپنی گفتگو میں ایسی کوئی بات نہیں کی بلکہ الٹا حاضرین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہمیں اِس صدی میں چار بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نسل انسانی کو خطرہ ہے، ثبوت کے طور پر میں نے کچھ اعداد و شمار دکھائے، چندعالمی واقعات سنائے اور ایک دو کتابوں کا حوالہ دیا جس کا مقصد اپنی علمیت جھاڑنے کے علاوہ شرکا کو (خواہ مخواہ) ڈرانا بھی تھا۔
لیکچر ختم ہوا تو ایک صاحب مجھے پرے لے گئے اور سرگوشی کے انداز میں بولے ’نوجوان، یہ باتیں جو آپ نے کی ہیں انہیں سُن کر تو لگتا ہے جیسےاگلے چوبیس گھنٹوں میں دنیا ختم ہو سکتی ہے۔‘
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ نہیں چوبیس گھنٹوں میں تو نہیں البتہ اگر اِن میں سے کوئی ایک خطرہ بھی حقیقت میں بدل گیا تو ہم چوبیس دن میں قیامت کا مزا چکھ لیں گے !
شاید یہ کوئی منحوس گھڑی تھی جب میں نے منہ سے یہ بات نکالی، کیونکہ جن چار خطرات کا میں نے اُس روز ذکر کیا تھا اُن میں سے ایک اپنی ہلکی پھلکی ’کورونا‘ شکل میں آج ہمارے سامنے ناچتا پھر رہا ہے۔

کورونا وائرس نے دنیا کے پھنے خان شہر بند کروا دیے ہیں، ہمارے شہر بھی بند کر دیے جانے کا خدشہ ہے، میں سوچتا ہوں کہ اگر ایسا ہوا تو اُس کے بعد کیا ہوگا؟
یورپ کے ملک تو امیر ہیں، کہیں کہیں وہاں فلاحی ریاستیں بھی قائم ہیں، حکومت اگر لوگوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے گی تو اُن کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی لے گی ۔
اپنے یہاں اگر لاک ڈاؤن ہوا تو وائرس تو پتا نہیں مرے گا یا نہیں غریب البتہ ضرور بھوک سے مر جائے گا۔
وہ سفید پوش جو روزانہ آدھی ڈبل روٹی اور چار انڈے خرید کر پوری فیملی کے ناشتے کا انتظام کرتے ہیں، وہ مزدور جو دیہاڑی کما کر بچوں کے لیے روٹی کا بندو بست کرتے ہیں اور وہ محنت کش جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرکے چار پیسے کماتے ہیں ،انہیں اِس لاک ڈاؤن کی اہمیت سمجھانا ایسے ہی ہے جیسے فاقہ زدہ علاقے میں کھانا تقسیم کرتے وقت بھوک سے نڈھال بچوں کو قطار بنانے کے فوائد گنوانا!

مجھے نہیں معلوم کہ یہ وائرس کب ہماری جان چھوڑے گا یا اِس کی ویکسین کب تیار ہوگی، مگر مجھے اتنا اندازہ ضرور ہے کہ ہم جیسے ملکوں میں کورونا وائرس کی ویکسین سے زیادہ غربت کے وائرس کی ویکسین ضروری ہے۔
ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو میرے خیالات سے اتفاق نہ ہو مگر ہم لوگ تو وہ ہیں جو اطمینان سے گھروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو ’گراسری سٹور‘ کرنے کے مشورے دے رہے ہیں.
ہم یہ بھول گئے ہیں کہ اِس ملک میں وہ کروڑوں لوگ بھی رہتے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ’گراسری‘ خریدتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ وہ مہینے کا اکٹھا راشن گھر لا سکیں ۔
دراصل مستقبل کا خوف سب سے زیادہ آسودہ حال شخص کو ہوتا ہے، کہیں کوئی وبا پھیلتی ہے، کوئی جنگ چھڑتی ہے، تیل کی قیمتیں گرتی ہیں یا عالمی کساد بازاری کی گھنٹی بجتی ہے تو امیر آدمی فوراً اندر سے لرز جاتا ہے ، اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اُس کی دولت ردّی نہ ہو جائے یا اُس کی آسودگی نہ ختم ہو جائے۔
