Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا گھریلو ملازمہ کو چھٹی پر بھیج دیا؟

پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں چار دن سے لاک ڈاؤن اور گھروں سے بلا ضرورت نکلنے پہ پابندی ہے اس لیے لوگوں نے راشن جمع کر رکھا ہے۔
اب رات ہوتے ہی سب دکانیں بند ہو جاتی ہیں، گلی محلوں میں ہو کا عالم ہوتا ہے، نہ کوئی کسی کے گھر جا رہا ہے نہ ہی کسی کو مدعو کر رہا ہے لیکن کیا ایسے میں آپ نے اپنی گھریلو ملازمہ کو چھٹی دے دی ہے؟
حکومت اور طبی ماہرین کی جانب سے تمام شہریوں کو خود کو گھروں تک محدود کرنے اور سماجی فاصلہ قائم رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر کراچی کی خواتین نے گھریلو ملازماؤں کو چھٹی پہ بھیج کر یہ ذمہ داری بھی خود اٹھا لی ہے۔
سندھ مدرستہ الاسلام کی لیکچرار خوشبو رفیق نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے ہی ملازمہ کو چھٹی دے دی تھی اور ساتھ ہی اپنے جاننے والوں اور دوستوں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کی ہے۔ 'آج کل جامعات بند ہیں لہٰذا گھر کے کام کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'میں نے اپنی ماسی کو کام سے فارغ نہیں کیا بلکہ اسے پیشگی تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر بھیجا ہے تاکہ وہ بھی راشن لے سکے اور اسے سمجھایا ہے کہ وہ بھی گھر پر رہے۔'
ثمرہ خضر ہاؤس وائف ہیں، حکومت سندھ کی جانب سے لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد انہوں نے بھی اپنی گھریلو ملازمہ کو چھٹی دے رکھی ہے۔

کئی خواتین نے اپنے گھریلو ملازماوں کو تنخواہ اور راشن دے کر چھٹی پر بھیج دیا ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ثمرہ خضر کا کہنا تھا کہ 'ماسی کو چھٹی دینے کی وجہ صرف اپنا بچاؤ نہیں بلکہ اس کی اور اس کے گھر والوں کی صحت کا خیال بھی تھا۔'
کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال بلاک 13 سے متصل کچی آبادی کے مکینوں میں سے بیشتر خواتین لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔ 
بدھ کی رات اس کچی آبادی کے ایک مکین میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی جس کے بعد محکمہ صحت کے اہلکار اسے گھر والوں سمیت ہسپتال لے گئے۔
اس واقعے کے بعد سے علاقے میں خوف کی فضا ہے اور فلیٹ پراجیکٹس کی انتظامیہ نے بلڈنگ میں غیر متعلقہ افراد بشمول گھریلو ملازماؤں اور ڈرائیوروں کے داخلے پہ پابندی لگا دی ہے۔
فلیٹ یونین کے سربراہ مسرور احمد نے بتایا کہ علاقے میں کورونا وائرس کا کیس سامنے آنے کے بعد وہ بہت محتاط ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کچھ گھروں میں اس علاقے سے ابھی بھی کام کرنے والی خواتین آرہی تھی تاہم اب انہوں نے رہائشیوں کے علاؤہ کسی بھی فرد کی بلڈنگ میں داخلے پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔'

کراچی کی  بیشتر خواتین نے اب گھریلو کام کاج کی مکمل ذمہ داری خود اٹھا لی ہے (فوٹو:سوشل میڈیا)

گلستانِ جوہر کے رہائشی اونیب اعظم نے بتایا کہ ان کی والدہ کی طبیعت ناساز رہتی ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی ملازمہ کو پیشگی تنخواہ دے کر چھٹی پر بھیج دیا ہے، انہیں کچھ دقت تو ہو رہی ہے لیکن وہ پھر بھی سماجی فاصلہ قائم رکھنے کی ہدایت پہ سختی سے عمل پیرا ہیں۔
جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ محمود نے بتایا کہ وہ تو تب سے ہی سیلف آئسولیشن کے نظریے پر عمل کر رہی ہیں جب سندھ حکومت نے پہلی بار جامعات میں تعطیلات کا اعلان کیا تھا۔
'ایک مہینہ ہونے کو آرہا ہے کہ میں گھر تک محدود ہوں، اب تو میری بیٹی اور شوہر کے دفاتر بھی بند ہوگئے ہیں اور وہ گھر سے کام کر رہے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے ماسی اور ڈرائیور دونوں کو چھٹی دے دی ہے اور نہ صرف تنخواہ بلکہ مہینے کے راشن کا بھی بندوبست کر کے دیا ہے۔'
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: