پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ایک ہفتے میں 11 فیصد اضافے کے ساتھ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 169 روپے تک پہنچ گئی، تاہم سٹیٹ بینک کی مبینہ مداخلت سے اس میں کچھ بہتری آئی اور کاروباری دن کے اختتام پہ ڈالر 165 روپے پہ بند ہوا۔
کورونا وائرس کے خدشے کے پیشِ نظر ملک کے معاشی مرکز میں کاروباری سرگرمیاں ایک ہفتے سے معطل ہیں، ساتھ ہی حکومت نے شرحِ سود میں بھی 2.25 فیصد کمی کر دی ہے، عالمی مارکیٹوں میں بھی مندی کا رجحان ہے، ان سب عوامل کے پس منظر میں گذشتہ 11 روز میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 11 فیصد تک مہنگا ہوگیا۔
کاروباری ہفتے کے آخری دن ڈالر گذشتہ روز کے مقابلے میں 4 روپے مہنگا ہو کر 169 روپے تک پہنچ گیا، تاہم مارکیٹ ذرائع کے مطابق سٹیٹ بینک نے مبینہ طور پہ مداخلت کی اور مارکیٹ میں 200 ملین ڈالر شامل کر کے ڈالر کی قیمت کو قدرے مستحکم کرتے ہوئے کل والی قیمت 165 روپے پہ واپس لایا۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا جس سے اس عمل کی تصدیق ہو سکے، تاہم سٹیٹ بینک کے قواعد میں شامل ہے کہ اگر روپے کی قدر خطرناک حد تک گر جائے تو وہ مداخلت کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
وزیراعظم کا اربوں روپے کے پیکیج کا اعلانNode ID: 466826
-
سٹیٹ بینک کا شرح سود میں کمی کا اعلانNode ID: 466891
-
کورونا سے بے روز گاری بڑھنے کا خدشہNode ID: 467206
ڈالر کی قیمت میں اس ہوشربا اضافے اور روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ بتاتے ہوئے منی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافے کی اصل وجہ شرحِ سود میں کمی کے بعد ہاٹ منی کا مارکیٹ سے نکلنا ہے۔
مارکیٹ کی اصطلاح میں ہاٹ منی کیا ہوتی ہے یہ سمجھنے کے لیے اردو نیوز نے فنانشل سکیورٹی کے ماہر عدنان سمیع شیخ سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں سرمایہ کار ان ممالک کی سٹاک مارکیٹس میں شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کرتے ہیں جہاں شرحِ سود زیادہ ہوتی ہے۔
پاکستان میں اس سال کے اوائل تک شرحِ سود کافی زیادہ تھی، یہی وجہ ہے کہ جولائی 2019 سے جنوری 2020 تک پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں تقریباً 3.1 ارب ڈالر ہاٹ منی کی سرمایہ کاری ہوئی، تاہم موجود عالمی معاشی صورت حال اور پھر حکومت کی جانب سے شرحِ سود میں خاطر خواہ کمی کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے مارکیٹ سے اپنا پیسہ نکال لیا ہے، اور تقریباً 2 ارب ڈالر ہاٹ کیش کے انخلاء کی یہی وجہ ہے۔
ملک بوستان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کا مالی سال 2020-2019 کے لیے حکومت نے شرح سود 13 فیصد کے قریب رکھنے کی بات کی تھی جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ٹریژری بانڈز اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری تھی۔ مگر حالیہ عالمی معاشی بحران اور حکومت کی جانب سے شرحِ سود میں کمی کے بعد سرمایہ کاروں نے مدت پوری ہونے سے پہلے ہی سرمایہ واپس نکال لیا۔

ملک بوستان نے بتایا کہ حکومت نے ان ادائیگیوں کو نہیں روکا تا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں میں پاکستان کا نام خراب نہ ہو لیکن اس ادائیگی کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے جس کا اثر ایکسچینج ریٹ پہ پڑا ہے۔
دوسری جانب سٹاک مارکیٹ بھی شدید مندی کا شکار ہے اور جنوری میں 42 ہزار پوائنٹس کی سطح تک پہنچنے والی مارکیٹ اس وقت گر کر 28 ہزار کی سطح تک آگئی ہے۔
مندی کا رجحان مارچ کے مہینے میں زیادہ زور پکڑ گیا جب 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور مارکیٹ میں کاروباری سرگرمی کو متعدد بار معطل بھی کرنا پڑا تاہم اس سب کے باوجود مارکیٹ کو بند نہیں کیا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جو سرمایہ کار پیسہ نکالنا بھی چاہتے ہیں وہ نکال سکیں۔
معاشی تجزیہ کار عدنان شیخ کا کہنا تھا کہ جیسے عام آدمی کے پیسے بینک میں رکھے ہوتے ہیں، ایسے ہی سرمایہ کاروں کا پیسہ سٹاک ایکسچینج میں لگا ہوتا ہے، اور اگر مارکیٹ کو بند کردیا جائے تو وہ پیسہ کیسے کیش کروائیں گے۔ ’یہی وجہ ہے کہ نقصان اور مندی کے باوجود دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹس کھلی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بے شک اس مندی کے رجحان میں کوئی اپنی 100 روپے کی چیز 10 روپے میں بھی بیچ کر پیسہ نکالنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے، ’پُل آؤٹ کے لیے بھی تو مارکیٹ کا کھلا رہنا ضروری ہے۔‘
