Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا سے بے روز گاری بڑھنے کا خدشہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)
معاشی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے نتیجے میں پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کے بے روزگار ہونے اور برآمدات میں کمی کا خدشہ ہے۔
وفاقی وزارت منصوبہ بندی سے منسلک تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے تین محققین کی مرتب کردہ ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کو روکنے کے لیے عائد کی گئی پابندیوں کے نتیجے میں معاشی کساد بازاری اور بے روزگاری ابتدائی طور پر تین مرحلوں میں اثرانداز ہو گی۔
سینیئر معاشی محققین محمود خالد، محمد ناصر اور نسیم فراز کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگر ملک میں کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل کیا جاتا ہے تو اس سے ایک کروڑ 85 لاکھ 30 ہزار لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔‘

 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحران کے نتیجے میں سب سے زیادہ روزگار ریٹیل کے کاروبار میں ختم ہو گا جب کہ زراعت، مصنوعات، ہوٹلز اور ریستوران، ماہی گیری اور روزانہ کی بنیاد پر روزگار حاصل کرنے والے یا ٹھیلے لگانے والے افراد بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
سینیئر تحقیق کار محمود خالد نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے لیے اس بحران سے نمٹنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اگر حکومت اس کے اثرات کو روکنے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کو ملتوی کرتی ہے تو کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا بے پناہ بوجھ صحت کے شعبے پر پڑے گا جو اس کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
محمود خالد نے بتایا کہ ایک کروڑ 85 لاکھ سے زائد نوکریوں کے خاتمے کا اندیشہ اس وقت ہے جب حکومت تمام کاروبار ایک ماہ کے لیے مکمل طور پر بند رکھتی ہے اور اس دوران کسی بھی دکان کو کھلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ماہرین کے مطابق حکومت جتنا جلدی بحران سے نکل ائے، اتنا ہی بہتر ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’اگرایک ماہ تک جزوی لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے، جیسا کہ ابھی ہے جس میں روزمرہ کی ضروریات سے متعلق کچھ کاروبار کھولنے کی اجازت ہے تو اس صورت میں ایک کروڑ 23 لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے۔‘
برآمدات میں کمی
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ٓایف پی سی سی آئی) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر بلال تھہیم نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ یورپ اور امریکہ جہاں پاکستانی مصنوعات کی منڈیاں ہیں وہاں بحران پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ سنگین ہے اور اگر حکومت مقامی سطح پر صنعت اور کاروبار کو کوئی سہارا دینے کی کوشش کرتی بھی ہے تو بھی پاکستان کی برآمدات بری طرح متاثر ہوں گی کیونکہ بیرون ملک سے آرڈرز نہیں ملیں گے۔

اولمپکس ملتوی ہونے سے کھیلوں کی صنعت بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے (فوٹو: روئٹرز)

’پاکستانی مصنوعات کے گاہکوں کو اس بحران سے نکلنے میں مہینوں لگ جائیں گے۔ ہمیں صورت حال کا کچھ اندازہ اس ہفتے کے آخر تک ہو جائے گا لیکن بحران کا حقیقی اثر ڈیڑھ ماہ بعد پڑے گا جب نئے آرڈرز ملنے کا وقت آئے گا۔‘
’ہر چیز متاثر ہو گی۔ خاص کر پاکستان کی ٹیکسٹائل اور کھیلوں کے سامان کی برآمدات کیونکہ اب تو اولمپکس بھی ملتوی ہو گئی ہیں۔‘
ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں انجم نثار نے بتایا کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں صرف کھانے پینے والی صنعت بچتی نظر آرہی ہے۔
'’ٹیکسٹائل کی برآمدات 50 فیصد رہ جائیں گی۔ مقامی صنعت کو بھی بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔ حکومت جتنا جلدی بحران سے نکالنے کی کوشش کرے گی، اتنا ہی بہتر ہے۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ انہیں صرف کھانے پینے کی صنعت بچتی نظر آرہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

معاشی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ 'حکومت نے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ لگایا ہوا ہے اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم نے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔'
’معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر مشترکہ مفادات کونسل اور قومی اقتصادی کونسل میں بھی تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اور ان تخمینوں کی روشنی میں مستقبل کی پالیسی مرتب کی جائے گی۔‘
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ لوگوں کی نوکریاں بچانے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کم کیا جائے اور صنعتوں اور کاروباری اداروں کو سستے قرضے فراہم کیے جائیں۔

پاکستان کے پاس اس وقت سرجیکل شعبے میں آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع ہیں (فوٹو: روئٹرز)

کورونا بحران کا روشن پہلو
ایف پی سی سی آئی کے سیکرٹری جنرل بلال تھہیم کے مطابق کورونا بحران کا پاکستانی برآمدات پر ایک مثبت اثر بھی پڑے گا کیونکہ اب دنیا بھر میں میڈیکل سپلائز میں اضافہ ہو گا۔
’پاکستان کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ سرجیکل مصنوعات، ماسکس اور میڈیکل گاؤنز کی برآمدات میں اضافہ کر لے۔‘

شیئر: