Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آباد کا ’آب‘ سے اور برباد کا ’ہوا‘ سے کیا تعلق ہے؟

عربی میں پانی کو ’ماء‘ کہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
علامہ اقبال کی مشہورِزمانہ نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ کو اردو نظم کا ’تاج محل‘ کہا گیا ہے۔ اس نظم کا ایک شعر ہے:
آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
مگر ہم اس شعر میں خواب نہیں ’آب‘ دیکھ رہے ہیں جو زندگی کی علامت ہے۔  بات کچھ سنجیدہ ہے اس لیے ضروری باتیں پہلے بتانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ حرف ’ب‘، ’پ‘ ،’واؤ‘ اور’میم‘ حسب موقع ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں۔ اب موضوع پر آتے ہیں۔
عربی میں پانی کو ’ماء‘ کہتے ہیں۔ اس ’ماء‘ کا ’میم‘ حرف ’ب‘ سے بدلے تو یہ ’با‘ ہوجاتا ہے۔ اب اس ’با‘ کو الٹا کر پڑھیں تو یہ ’اَب‘ بن جاتا ہے جو فارسی کا ’آب‘ ہے۔ پھر اس ’با‘ کا ’ب‘ اردو میں ’پ‘ سے بدلنے پر ’پا‘ ہوگیا ہے۔ یہ ’پانی‘ کی اصل ہے کیوں کہ ’پانی‘ میں ’نی‘ نون غنہ کا قائم مقام ہے۔
بات ابھی تمام نہیں ہوئی، عربی ’ماء‘ کا ’میم‘ حرف ’واؤ‘ سے بدل کر’وا‘ ہوجاتا ہے جو انگریزی ’واٹر‘ (water) سے متعلق ہے۔ water  میں wa اصل اور ’ter‘ لاحقہ ہے جسے sister اور daughter وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ عربی کا ’ماء‘، فارسی کا ’آب‘، اردو کا ’پانی‘ اور انگریزی کا ’واٹر‘ سب اصلاً ایک ہی لفظ کی مختلف صورتیں ہیں۔ پھر غور کریں ان چاروں الفاظ کو ادا کرتے ہوئے منہ کھلتا ہے جو پانی کی طلب کا اشارہ ہے
عربی کو چھوڑ کر ’ہندی، اردو، فارسی اورانگریزی‘ زبانوں کا تعلق ’ہند یورپی‘ لسانی گروہ سے ہے۔ اس گروہ کی بنیادی زبان ’سنسکرت‘ ہے۔ سنسکرت میں ’پانی‘ کے لیے دسیوں الفاظ ہیں۔ ان میں سے دو الفاظ زیر بحث موضوع سے متعلق ہیں۔
ان میں ایک لفظ ’اپ‘ (अप्/ap) ہے جو فارسی کے ’آب‘ کی اصل ہے۔ پھر یہی ’آب‘ لہجے کے فرق سے  پشتو میں ’اوبہ‘ ، تاجک میں اُب (об) اور رومانین زبان میں اَپ (apă) ہو کر واپس سنسکرت سے جاملتا ہے۔
سنسکرت کا دوسرا لفظ ’وا‘ (व/va) ہے، جوانگریزی واٹر(water)، جرمن، واسا (Wasser) اور ’یدیش‘ زبان کے ویسا (vaser) کی اصل ہے۔
جب کہ یوکرینی اور مقدونی زبان میں اس ’واٹر‘ کی ایک صورت ووڈا (voda) ہے۔ یہی ’ووڈا‘ لہجے کے اختلاف کے ساتھ  دیگر بہت سی زبانوں کو سیراب کررہا ہے۔

قدیم زمانے میں شہر دریاؤں کے کنارے ’آباد‘ کیے جاتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

 سنسکرت میں پانی کے لیے ایک لفظ ’جَل‘ ہے۔ اسے آپ ’گنگا جَل‘، ’جل تھل‘ اور ’جلَ پری‘ کی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنسکرت میں پانی کو ’نِیر‘ بھی کہتے ہیں جو یونانی زبان میں نِیرو (Νερό/Neró)  ہے۔ پانی کی رعایت سے اردو اور ہندی زبان میں آنسوؤں کو مجازاً ’نیر‘ کہا جاتا ہے۔ لُدھیانہ (انڈیا) کے انجم لدھیانوی کا کہنا ہے: 

’باد‘ کے ذکر سے یاد آیا فارسی میں بے طلب یا بغیر محنت کے ملنے والے مال کو ’گنجِ باد آور‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ممکن ہے غم بہہ نکلے
نینا ’نِیر‘ بہا کر دیکھ
چونکہ تفصیل کا موقع نہیں ہے، لہٰذا آگے بڑھتے اور ایک بار پھر’آب‘ پر آتے ہیں۔ پانی دھوپ میں چمکتا ہے سو اس رعایت سے فارسی میں چمک دمک کو بھی ’آب‘ کہتے ہیں۔ ’آب و تاب‘ کی ترکیب اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔
پھر اس چمک کی رعایت سے موتی کی چمک اور ہتھیاروں کی تیز دھار بھی ’آب‘ کہلاتی ہے۔ ترکیب ’آبدار‘ ایک جانب ’چمک‘ سے اور دوسرے طرف پانی کی انتظامی کاری پر مامور شخص سے متعلق ہے۔ چونکہ ’آب‘ سے متعلق تراکیب میں کافی پھیلاؤ ہے اس لیے ہم آئندہ سطور میں مطلوبہ معنی ہی سے بحث کریں گے۔
قدیم زمانے میں شہر دریاؤں کے کنارے ’آباد‘ کیے جاتے تھے۔ وجہ ظاہر ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اب اس ’آب‘ کی رعایت سے لفظ ’آباد‘ پر غور کریں بات خود سمجھ آجائے گی کہ پانی کو زندگی کی علامت کیوں کہا گیا ہے اور کیوں سائنسدان خلا کی وسعتوں میں موجود سیاروں میں زندگی کے آثار پانی کی صورت میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
رنگا رنگی سے بھرپورزندگی کی نسبت سے’آباد‘ کے لفظی، اصطلاحی اور مجازی معنی میں بسا ہوا مکان یا جگہ، قیام، خوش وخرم، خوشحال، سرسبز، تروتازہ، شاداب اورجَوتی ہوئی زمین وغیرہ داخل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس رونق اور چہل پہل کی رعایت سے ’آباد‘ کا لفظ ’شہر‘ کا مترادف ہوگیا ہے۔ اسے آپ برصغیر کے علاوہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا کے کتنے ہی شہروں کے نام میں بطور لاحقہ دیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ الہٰ آباد، حیدرآباد، اسد آباد، اشک آباد وغیرہ۔ ’آباد‘ سے متعلق اس تفصیلی بیان کے بعد اب  میرتقی میر کے شعر کا لطف اٹھائیں:
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کر
اس آباد کی ضد یا اُلٹ بیابان اور برباد ہے۔ پہلے ’بیاباں‘ پر غور کریں۔ یہ لفظ ’بے آب‘ اور’آن‘ سے مل کربنا ہے۔ ’بے آب‘ کا مطلب تو واضح ہے جب کہ ’آن‘ بطور لاحقہ آتا ہے اور مقام کو ظاہر کرتا ہے۔ یوں وہ جگہ جہاں پانی ناپید ہو’بیابان‘ کہلاتی ہے۔ معروف صحافی اورشاعر محمود شام کا شعر ہے:
ریت کا ڈھیر بنا دے نہ کہیں
دھوپ میں تپتا بیابان مجھے
اب ’برباد‘ پرجائیں۔ اگر ’آباد‘ کا تعلق ’پانی‘ سے ہے تو ’برباد‘ کا رشتہ ’ہوا‘ سے ہے۔ وہ یوں کہ فارسی میں ہوا کو ’باد‘ کہتے ہیں اور ’برباد‘ دو لفظوں’براور باد‘ سے مل کر بنا ہے، اور اس کے لفظی معنی ہیں ’ہوا کے اوپر‘۔ اول اس کا استعمال اس مال و اسباب کے لیے تھا جسے آندھی اورطوفان غارت کردے اور وہ پرزہ پرزہ ہو کر ہوا کے زور سے دور دور بکھرجائے۔ بعد میں ’برباد‘ لفظ  ’تباہ، ویران ، اُجاڑ، غارت ،خراب اور ضائع‘ کا مترادف ہوگیا۔ میرانیس نے اس ’برباد‘ کو ’آباد‘ کے ساتھ خوبصورتی سے برتا ہے۔
انیسؔ آساں نہیں ’آباد‘ کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی ’برباد‘ کرتے ہیں
’باد‘ کے ذکر سے یاد آیا فارسی میں بے طلب یا بغیر محنت کے ملنے والے مال کو ’گنجِ باد آور‘ کہتے ہیں۔ یعنی ’ہوا کا لایا ہوا خزانہ‘۔ اردو میں اس کی جگہ عربی ترکیب ’نعمتِ غیرمترقبہ‘ رائج ہے اورمطلب وہ نعمت ہے جو خلاف توقع بیٹھے بیٹھائے ہاتھ آجائے۔ 

میر کا ایسا کہنا بنتا بھی تھا کہ ان کا ’کچن‘ایسے ہی قصیدوں کے دَم سے’آباد‘ تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

فارسی محاورے ’گنج باد آور‘ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایرانی بادشاہ خسروپرویز نے رومی سلطنت کے مشرقی دارالحکومت ’قسطنطنیہ‘ کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ایرانیوں کا دباؤ بڑھا تو رومی بادشاہ ہِرقل (ہرکولیس) نے احتیاطاً زروجواہر پر مشتمل خزانہ (گنج) چار بحری جہازوں میں رکھوا کر اسکندریہ کے لیے روانہ کردیا۔
جہاز ابھی بحیرہ روم میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ انہیں باد مخالف نے آلیا اور خزانوں سے لدے یہ جہاز ہوا کے زور سے راستہ بھٹکنے پر ایرانیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ خسرو پرویز کو جب اس کی اطلاع ملی تو اس نے اس خزانے کو ’گنجِ باد آور‘ کا نام دیا۔
کہتے ہیں کہ ’گنج باد آور‘ خسروپرویز کے ہفت گنج (سات خزانوں) میں سے ایک تھا ۔ باقی کے چھ خزانے’ گنج عروس،گنج افراسیاب، گنج سوختہ ، گنج خضرا، گنج شاد آور اور گنج بار‘ کہلاتے ہیں۔
میر تقی میر نے ریاست اودھ (لکھنؤ) کے نواب آصف الدولہ بہادر کی شان میں قصیدہ لکھا تو خسرو پرویزکے ’ہفت‘ گنج کوایک ہی شعرمیں بے توقیر کر دیا:
کروں میں عرض سو کیا ’ہفت گنجِ خسرو‘ کو
کہ تیرے بخش دیے کے نہیں ہیں عشرِ عشیر
میر کے مطابق نواب صاحب کی بخشش کے سامنے خسرو کے سات خزانے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ میر کا ایسا کہنا بنتا بھی تھا کہ ان کا ’کچن‘ایسے ہی قصیدوں کے دَم سے’آباد‘ تھا۔
اجازت دیں اگلی نشست میں ’ہفت گنجِ خسرو‘ کی تفصیل کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ 

شیئر: