Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراؤن سے کورونا اور کوارانٹا سے قرنطینہ

کچھ لوگ شر میں سے بھی خیر کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
’کورونا‘ کے شور میں تاجکستانی گلوکارہ ’نگاره خالاوه‘ کی غزل کا زور ہے۔ جس کا مطلع ہے:
 شہر خالی، جاده خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
غزل میں کوچہ و بازار کی ویرانی کا ماتم اوردوستوں کی محفلیں اُجڑ جانے کا نوحہ ہے۔ نہیں معلوم اس غزل کے خالق ’امیرجان صبوری‘ کو کن تلخیوں کا سامنا تھا کہ ان کے جذبات یوں شعر میں ڈھل گئے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ’کورونا‘ کی تباہ کاریوں کے سبب آج پوری دنیا ہی اس شعر کی مجسم تصویر بن چکی ہے۔

 

کچھ لوگ شر میں سے بھی خیر کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک معروف شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی بھی ہیں جن کا کہنا ہے:
سکوں ہے، ملنے ملانے سے جان چھوٹ گئی
وبا چلی وہ، زمانے سے جان چھوٹ گئی
وبا کا کرکے بہانہ تجھے بھی چھوڑ دیا
بہانے روز بنانے سے جان چھوٹ گئی
شاعر کی جان تو چھوٹ گئی مگر نہیں معلوم ’کورونا وائرس‘ سے دنیا کی جان کب چُھوٹے گی۔ خیر ہم آتے ہیں معنی و مطالب کی طرف کہ ’یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر‘۔
Corona‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’تاج‘ ہیں۔ یہی ’Corona‘ انگریزی کے سرپر’crown‘ کی صورت میں سجا ہے۔ لہجے کے فرق کے ساتھ ’Corona‘ تقریباً تمام یوروپی زبانوں میں موجود ہے۔

وائرس کے اطراف ’crown‘ ہی کی طرح دندانے دار ہوتے ہی فوٹو: اے ایف پی

چونکہ بیماری پھیلانے والے اس مہلک وائرس کے اطراف ’crown‘ ہی کی طرح دندانے دار ہوتے ہیں لہٰذا اس ظاہری نسبت سے اسے ’Corona‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کے شکار افراد کو دوسروں سے الگ تھلگ جس مقام پر رکھا جا رہا ہے اسے ’قرنطینہ‘ کہتے ہیں۔ آج کل تفتان میں قائم قرنطینہ کا خوب چرچا ہے۔ ایسے میں نوخیز شاعر محمد تابش صدیقی نے لفظ ’قرنطینہ‘ کے بارے میں پوچھا ہے۔ 
پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ  متاثرہ شخص یا اشخاص کا ’قرنطینہ‘ میں رکھا جانا صرف ’کورونا‘ ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر وہ جان لیوا بیماری جو وبائی صورت اختیار کرسکتی ہے اس سے متاثرہونے والوں کو ’قرنطینہ‘ میں رکھا جاتا ہے۔ مقصد مرض کو پھیلنے سے روکنا ہوتا ہے۔  
’قرنطینہ‘ کی ظاہری صورت اورعربی زبان میں موجودگی سے اس کے عربی الاصل ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ مگر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ لفظ عربی نہیں بلکہ اطالوی زبان سے متعلق ہے۔ معروف محقق ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم کے مطابق ’اس کی اصل quarantine ہے اور یہ quaranta سے ماخوذ ہے، جس کے معنی چالیس (40) ہیں۔ ابتداء میں قرنطینہ کی مدت چالیس (40) دن ہوتی تھی، اب یہ مدت بیماری کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے‘۔

قرنطینہ  لہجے کے اختلاف کے ساتھ دیگر یورپی اورغیر یورپی زبانوں میں بھی موجود ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اطالوی زبان کا یہ لفظ اگر عربی میں ’قرنطینہ‘ ہے تو انگریزی میں quarantine ہے۔ اسی طرح جرمن Quarantäne، ڈینش میں karantæne اور ہسپانوی میں cuarentena ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ لفظ لہجے کے اختلاف کے ساتھ دیگر یورپی اورغیر یورپی زبانوں میں بھی موجود ہے۔ ’قرنطینہ‘ میں بیتے دنوں کا تجربہ میرتقی میر کے درج ذیل شعر میں جھلکتا:
ایک مدت ہوئی بدنامی و رسوائی ہے
بے کسی، بے دلی، درویشی و تنہائی ہے
اب یہ کوئی محقق ہی بتائے گا کہ میرصاحب کبھی قرنطینہ میں رہے بھی ہیں یا نہیں۔
خیر آگے بڑھتے ہیں اور مرض و مریض کی رعایت سے ’ایمبولینس‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ ایمبولنس (ambulance) وہ گاڑی ہے جس کے ذریعے مریضوں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ عربی میں ایمبولینس کو ’إسعاف‘ کہتے ہیں، کیوں کہتے ہیں نہیں معلوم، البتہ لفظ’ایمبولینس‘ انگریزی میں کہاں سے پہنچا اور اس کے کیا معنی ہیں یہ بتائے دیتے ہیں۔ 
انگریزی کا ایمبولینس (ambulance)، فرانسیسی ایمبولنٹ (ambulant) کی تبدیل شدہ صورت ہے۔ اور اس ایمبولنٹ (ambulant) کی اصل لاطینی کا امبیولیٹ (ambulate) ہے جس کے معنی ’چلنا پھرنا ہیں‘۔ دلچسپ بات یہ کہ یہی ambulate انگریزی میں مٹر گشت کرنے اور ادھر اُدھرگھومنے پھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

ایمبولنٹ (ambulant) انگریزی میں پہنچ کر ایمبولنس (ambulance) ہوگیا۔ فوٹو: اے ایف پی

فرانسیسی میں  مکمل ترکیب hopital ambulant یعنی چلتا پھرتا ہسپتال تھی۔ لفظ ایمبولینس کا اطلاق گاڑی سے پہلے ان عارضی جنگی ہسپتالوں پر ہوتا تھا جنھیں حسب ضرورت کہیں بھی منتقل کیا جاسکتا تھا بعد میں ہسپتال قدم جما کر کھڑے ہوگئے اور مریضوں اور زخمیوں کو جس گاڑی کے ذریعے منتقل کیا جانے لگا اسے ایمبولنٹ (ambulant) کہنے لگے جو انگریزی میں پہنچ کر ایمبولینس (ambulance) ہوگیا۔
ہسپتال کو اردو میں اسپتال بھی لکھا جاتا ہے۔ جب کہ  ہسپتال کوعربی میں ’مستشفىٰ‘ کہتے ہیں جس کی اصل ’شفاء‘ یعنی صحت یابی ہے۔ فارسی میں اس کے لیے دوتراکیب رائج ہیں ان میں سے ایک ’بیمارستان‘ ہے جسے سن کر ہی الجھن ہونے لگتی ہے اور ذہن میں ایک ایسے مقام کا خاکہ ابھرتا ہے جہاں درد و غم کے مارے آہ و بکا کررہے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اردو زبان نے اس لفظ کو قبول نہیں کیا جب کہ اس کے برخلاف فارسی کی دوسری ترکیب ’شفاء خانہ‘ کو قبول عام حاصل ہوا کہ اس ترکیب میں صحت و تندرستی کا پیغام جھلکتا ہے۔
صحت و تندروستی سے یاد آیا کہ اگر ’کورونا ‘ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا ہے تو آپ بھی ’ہاتھ دھوکر‘ اس سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں کہ فی الحال یہی نسخہ کار آمد ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اجازت چاہیں ہاتھ دھونے کی رعایت سے اسماعیل میرٹھی کا حسب حال شعر ملاحظہ کریں:
ہاتھ دھو کر پڑی ہو پیچھے تم
جان پر آ بنی حواس ہیں گم

شیئر: