پہلے سوچتے تھے کہ وقت کیسے نکالیں اب سوچتے ہیں وقت کو کاٹا کیسے جائے
آج کل زمانہ کچھ ایسا ہے کہ جس کسی کو بھی ذرا سی فرصت ملتی ہے فون لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ اگر مصروفیت زیادہ ہو تو اپنے بچوں کا دھیان بٹانے کے لیے فون ان کو دے دیا جاتا ہے کیونکہ ’بچے ہمارے عہد کے‘ اس قدر چالاک ہو گئے ہیں جب تک جگنو کی طرح موبائل بھی ان کے ہاتھ میں نہ آ جائے تب تک منہ بند ہوتا ہے نہ دوسروں کی سماعتوں کا امتحان۔
خیر یہ سب تو چل ہی رہا تھا لیکن پھر ایسا ایک موڑ آیا اور ہم پہنچے سیدھے اس ون وے پر جس کا پھاٹک بند ہے یعنی لاک ڈاؤن۔
اب خود ہی دیکھ لیں، کبھی سوچا تھا کہ ایک ننھا منا بلکہ نظر نہ آنے والا جرثومہ گبر سنگھ کی طرح ہمیں گھروں میں بند کر کے ساتھیوں سے پوچھتا ہو گا ۔۔۔ کتنے آدمی تھے جو گھروں سے نکلے؟؟
جس وقت کو حاصل کرنے کے لیے جانے کتنی تگ و دو کرنا پڑتی تھی وہ کسی پکے ہوئے آم کی طرح ہماری جھولی میں آ گرا ہے۔
کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ پہلے سوچتے تھے کہ وقت کیسے نکالیں اب سوچتے ہیں وقت کو کاٹا کیسے جائے۔
اب آئیے ان بچوں کی طرف جنہیں کورونا سے پہلے زندگی میں ایک منٹ کی فرصت نہ تھی۔ سکول جانا، گھر آ کر کھانا کھانا، قاری صاحب کا آنا، پھر ہوم ورک، کھیلنا اور پھر کیا، دن ہی ختم۔۔۔
اب یہ تمام بچے 24 گھنٹے اپنے ماں باپ کی نگرانی میں واپس آ چکے ہیں۔ آج کا گھر وہ گھر ہے، جہاں سے بابا نہ کام کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ نہ بچے سکول جاتے ہیں اور ماؤں کے فرصت کے لمحات فرسٹریشن میں بدل گئے ہیں لیکن جیسے کہ ہمارے لیڈرز کہتے ہیں کہ ’گھبرانا نہیں ہے‘ اس لیے بالکل مت گھبرائیے۔
جی ہاں ہم لے کر آئے ہیں آپ کے لیے کچھ ایسے ہی آئیڈیاز جو ہمیں ٹیکنالوجی کے پچھلے ادوار میں لے جا سکتے ہیں۔
جب بچے شام میں کمپیوٹر گیمز کے بجائے اپنے دادا دادی کی بغل میں بیٹھ کر قصے کہانیاں سنا کرتے تھے۔
چاہے وہ آزادی کی کہانیاں ہوں، پریوں جنوں کی یا انبیا کے واقعات کہ انہوں نے کس طرح اللہ سے مدد طلب کی۔
ہم بھی اپنے مشکل وقت میں اور اپنی زندگی کے اس آزمائشی وقت کو کچھ ایسے ہنر سیکھنے میں گزار سکتے ہیں جن سے آنے والے دنوں میں ہمیں فائدہ ہو۔
ہم اپنے معاشرے میں موجود صنفی امتیاز کو بھلا کر لڑکیوں کو گاڑی کا کام جیسے ٹائر بدلنا یا دوسری چھوٹی موٹی مرمت وغیرہ سکھا سکتے ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف جہاں ہمیں اپنے مردوں سے شکایت ہے وہاں اپنے بیٹوں کی تربیت کر سکتے ہیں جیسے کچن میں ہاتھ بٹانا اور کھانا بنانا۔
اپنے گھر سے بناوٹ دور کر کے اسے قدرت کی طرف بھی لے کر آنا چاہیے کہ جس کائنات کو ہم نے آلودگی اور دھڑا دھڑا شہر بسانے سے اتنا نقصان پہنچایا اب شاید اس سے بہترین وقت اور کیا ہوگا کہ ہم فطرت کو لگنے والے زخموں پر مرہم رکھیں۔
اپنے گھروں کے علاوہ پڑوس اور علاقے میں بچے درخت لگا سکتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں اپنے گھروں میں سبزیوں اور پھلوں کے پودے بھی لگائے جا سکتے ہیں تاکہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی تربیت کر سکیں۔
جب گھر میں پودے اور سبزیاں لگ ہی رہی ہیں تو اس سے بہتر موقعہ کیا ہوگا کہ بچوں سے ان کے برتنوں پر پینٹنگ کروائی جائے تاکہ اس وائرس کے پھیلائے اندھیرے کو فن اور ہنر کی قندیلوں سے ہم روشنی میں بدل دیں۔
رنگ زندگی کا حصہ اور زندگی کے کئی رنگ ہیں جبکہ لاک ڈاؤن کے بعد تو کچھ مزید شیڈز بھی ابھرے ہیں۔ انہی رنگوں میں رنگ کر ہم اپنے بچوں میں لطیف احساسات جگانے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔