Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر رہنا مجبوری یا ضروری

جب سے دنیا میں کورونا کی وبا پھیلی ہے لوگوں کو قرنطینہ اور سیلف آئسولیشن جیسی اصطلاحات سننے کو مل رہی ہیں۔
کئی ممالک نے وبا کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر تیاریاں شروع کردی ہیں جب کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی دنیا بھر کے ممالک کو تکنیکی گائیڈلائنز تیار کرکے دی ہیں۔ پاکستان میں بھی عالمی ادارہ صحت کی تکنیکی گائیڈ لائنز کی روشنی میں حکمت عملی مرتب کی گئی۔ 
اس حوالے سے جو سب سے آزمودہ طریقہ کار سامنے لایا گیا وہ قرنطینہ اور آئسولیشن تھا۔ پاکستان میں ان اصطلاحات کے متعلق عوام کا خاصا حصہ اب بھی تذبذب کا شکار ہے۔
ماہرین کے مطابق عوام کو آئسولیشن، سیلف آئسو لیشن اور قرنطینہ کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔ اس لیے انہیں سب سے پہلے اس فرق کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ 

قرنطینہ اور آئسولیشن میں فرق 

امریکی ادارے سینٹر برائے کنٹرول ڈیزیز (سی ڈی سی) کے مطابق قرنطینہ کا مطلب ہے کہ جب کسی ملک یا خطے میں وبائی مرض عام ہو جائے تو وہاں کے صحت مند افراد کو اس بیماری سے بچانے کے لیے نقل و حرکت محدود کرنے اور سماجی میل جول منقطع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ کسی فرد میں مرض کا شبہ ہو یا وہ کسی متاثرہ علاقے سے آیا ہو تو اس کو قرنطینہ میں رکھ کر روزانہ کی بنیاد پر معائنہ کیا جاتا ہے کہ کہیں اس میں بیماری کی علامات تو واضح نہیں ہو رہیں۔
دوسری جانب آئسولیشن یعنی تنہائی کا مطلب ہے کہ کسی بھی وبائی مرض سے متاثرہ شخص کو جس کی بیماری کسی دوسرے انسان میں منتقل ہونے کا خدشہ ہو باقی لوگوں سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر لیا جائے۔

آئسولیشن کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم سیلف آئسولیشن یعنی از خود تنہائی ہے۔ جس بھی فرد میں کورونا کی علامات موجود ہوں وہ از خود تنہائی میں چلا جائے اور خود کو گھر کے کسی کمرے میں بند کر لے۔ باہر نکل کر اپنا کوئی بھی کام نہ کرے اور کسی بھی قسم کا میل جول ختم کر لے۔ دوسری قسم کسی بھی ہسپتال کی آئسولیشن وارڈ ہے جہاں مریض کو مکمل علیحدگی میں رکھ کر اس کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔   

پالیسی کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق کورونا کے حوالے سے پالیسی یا پروٹوکول یہ ہے کہ جس ملک یا علاقے میں بھی یہ بیماری موجود ہو وہاں لوگ اپنے آپ کو گھروں تک محدود کر لیں۔ اگر کسی کے علامات ہیں تو خود کو آئسولیشن میں یا از خود تنہائی میں لے جائے۔ ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود اگر علامات سنگین نہیں ہیں تو متاثرہ فرد کو گھر پر آئسولیشن میں ہی رہنا چاہیے۔
پاکستان کے قومی ادارہ صحت کے کورونا وائرس کے حوالے سے جاری کیے گئے ورکنگ پیپر میں بھی ایسی ہی ہدایات درج ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی اپنی ہر پریس کانفرنس میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ معمولی علامات کی صورت میں ہسپتال کا رخ کرنے کے بجائے گھر پر تنہائی میں رہنے کو ترجیح دی جائے۔ اسی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن کرکے لوگوں کو قرنطینہ میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ 

عمل در آمد کا مسئلہ 
ایک طرف حکومت کی پالیسی ہے کہ لوگ ہسپتالوں کا رخ کرنے کے بجائے سیلف آئسولیشن اختیار کریں تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں کہ جب کسی کی اطلاع  پر حکام نے سیلف آئسولیشن میں موجود مریض کو ہسپتال منتقل کرکے نہ صرف گھر بلکہ گلی محلے کو سیل کر دیا ہو۔ ایسے واقعات پنجاب میں راولپنڈی، جہلم، گجرات اور دیگر صوبوں میں بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ 
عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر سعید خان کا کہنا ہے کہ ’پروٹوکول کے مطابق سیلف آئسولیشن بہترین طریقہ کار ہے لیکن پاکستان میں ہمسائے اور جاننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ پڑوس میں موجود مریض ان کے لیے خطرہ بن جائے گا اس لیے وہ گھبراہٹ میں کال کرکے انتظامیہ کو بلالیتے ہیں اور انتظامیہ متاثرہ فرد کو گھر سے اسپتال منتقل کردیتی ہے۔‘ 

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جہاں یہ بیماری موجود ہو وہاں لوگ اپنے آپ کو گھروں تک محدود کر لیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارے ہسپتال وائرس کی منتقلی کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ زیادہ تعداد میں مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنے سے سہولیات کا فقدان بھی ہو سکتا ہے۔ عوام کو سماجی میل جول منقطع کرنے کے حوالے سے سے ترغیب دینا لازم ہے۔‘
ترجمان وزارت صحت ساجد شاہ کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ حکام کسی بھی کورونا کی علامات والے یا مثبت رپورٹ آنے والے افراد کو سرکاری ہسپتالوں کے آئسولیشن وارڈ میں بھیج رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور تمام صوبے اس وقت صرف ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ملک میں کورونا کو پھیلنے سے روکا جائے۔‘
اس حوالے سے سیلف آئسولیشن اختیار کرنے والے ریاست کی نظر میں قابل قدر شہری ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ متاثرہ ممالک سے آنے والے افراد اپنی علامات چھپا کر معاشرے میں کورونا پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی لیے جب کہیں سے اطلاع ملتی ہے تو احتیاط کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے فرد کو قرنطینہ یا آئسولیشن وارڈ میں منتقل کرکے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ 

پروٹوکول کے مطابق سیلف آئسولیشن بہترین طریقہ کار ہے  (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ترجمان نے کہا کہ ’ایسے کسی بھی فرد کا ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں اس کے رابطے میں آنے والے افراد کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاقے کو بھی قرنطینہ میں تبدیل کیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں پر کورونا پھیلنے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ٹیم کے پہنچنے پر معلوم ہوا ہو کہ متعلقہ فرد پہلے سے ہی سیلف آئسولیشن میں ہے اور وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اپنے آپ، خاندان اور علاقے کو کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کر رہا ہو تو اس کے گھر میں تنہا رہنے کے فیصلے کا احترام کیا گیا ہے۔‘ 
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: