وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پاکستان میں حالیہ چینی بحران پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ 'وہ چینی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیشن کی جامع رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔'
ایف آئی اے کی جانب سے وزیراعظم کو جمع کرائی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ملز مالکان نے دو طرح سے مالی فائدہ حاصل کیا۔'
'ملز مالکان نے پہلے حکومت کی جانب سے دی گئی برآمدی سبسڈی سے مالی فائدہ اٹھایا۔ اس کے بعد چینی برآمد کرنے سے مقامی منڈی میں اس کی قلت پیدا ہوئی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کا براہ راست فائدہ بھی ان مالکان کو ہوا ہے۔'
مزید پڑھیں
-
’آٹا 70 روپے کلو لیکن آپ نے گھبرانا نہیں‘Node ID: 453766
-
آٹا بحران: حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا؟Node ID: 454146
-
'کارروائی سے قبل آڈٹ رپورٹ کا انتظار ہے‘Node ID: 469601
اب اس ساری صورت حال میں اس سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ سبسڈی اور برآمد کرنے کی اجازت حکومت نے خود دی تو شوگر ملز مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کیسے کی جا سکتی ہے؟
سبسڈی ہوتی کیا ہے؟
حکومت کسی بھی شعبے کو مدد فراہم کرنے کے لیے سبسڈی دیتی ہے جس کا مقصد ملک کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ افراد کو مالی مدد فراہم کی جاتی ہے تاہم اس سبسڈی کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر انجم الطاف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کسی بھی شعبے کی ترقی کے لیے حکومت ایک مخصوص وقت تک سبسڈی دیتی ہے اور پھر اسے واپس لے لیتی ہے۔'
'سبسڈی دینے کے اختیار کا استعمال غلط بھی ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دے دیں اور جہاں ضرورت نہیں وہاں بھی سبسڈی دے دی جائے یا کسی کو ایک مرتبہ سبسڈی دی تو اسے ہمیشہ کے لیے ہی سبسڈی دے دی جائے۔ سبسڈی کا ایک قانونی پہلو بھی ہے اور اس کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔'
ماہر معاشیات مزمل اسلم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سبسڈی لینا کوئی جرم نہیں ہے، پاکستان میں مختلف شعبوں میں حکومت سبسڈی فراہم کرتی ہے۔سبسڈی کسی شعبے کو فروغ دینے کا طریقہ کار ہے۔'

شوگر ملز مالکان کو سبسڈی کیوں فراہم کی جاتی ہے؟
مزمل اسلم کہتے ہیں کہ 'یہ سوال اہم ہے کہ گذشتہ چھ سال سے چینی کے شعبے میں ہی سبسڈی کیوں دی جاتی رہی؟
'ایک سال یا دو سال سبسڈی دے سکتے تھے، اس کا تو مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے چینی کا کاروبار کرنے والے لوگ حکومت کو قائل کر لیتے ہیں۔'
وفاقی وزارت خزانہ کے ایک سابق اعلٰی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ 'ملک میں کسی چیز کی پیداوار کی کمی ہو یا زیادتی دونوں صورتوں میں مسائل کا ہی سامنا رہتا ہے۔‘
'جب کسی بھی چیز کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے تو اس کو محفوظ بنانے کے اخراجات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور پھر صوبے پیدوار کو برآمد کرنے کی اجازت مانگتے ہیں۔چینی کی پیداوار پر عالمی منڈی کے مقابلے میں اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے برآمدگی پر سبسڈی دی جاتی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت برآمد کرنے کی اجازت نہ دے تو اگلے سال پھر گنے کے کاشت کاروں سے گنا نہیں خریدا جاتا اور پھر وہ متاثر ہوتے ہیں۔'
معاشی امور کے ماہر مزمل اسلم نے کہا کہ 'جب ملک میں اتنے عرصے سے کھپت سے زیادہ چینی کی پیدوار ہوتی چلی آرہی ہے تو گنا زیادہ نہ اگانے کی قانون سازی نہیں کی جاتی۔'
'کپاس کی کاشت کاری کم اور گنے کی کاشت کاری زیادہ کی جا رہی ہے اور پھر چینی برآمد کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ اس نظام کے اندر موجود خرابی کی نشان دہی کرتی ہے۔'
مزمل اسلم کے مطابق 'جن ذمہ داروں کا اس رپورٹ میں تعین کیا گیا ہے ان کے خلاف کارروائی کے امکانات کم ہیں کیونکہ ان کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔'

'سبسڈی قانون کے مطابق دی گئی، اگر فرانزک رپورٹ میں کوئی ہیر پھیر ثابت ہو جائے تو کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن وہ ثابت کرنا مشکل کام ہے۔'
چینی بحران کی رپورٹ نیب کا بہترین کیس بن سکتا ہے
سابق سپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ایف آئی اے کی رپورٹ اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک مثالی کیس ہے۔'
'رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملز مالکان جو کہ حکومت میں بااختیار ہیں انہوں نے ایسے فیصلے کیے کہ مالی طور پر ان کو فائدہ حاصل ہوا اور یہی نیب قوانین میں کرپشن کی تعریف ہے۔'
