پاکستان کی سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث ہائی کورٹس کی جانب سے ضمانت پر رہا کیے گئے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، ہائی کورٹس نے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کر دیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ کوئی بھی جج عوامی رائے پر نہیں بلکہ قانون پر چلنے کا پابند ہے۔
مزید پڑھیں
-
جیلوں میں ہزاروں قیدی بیماریوں کا شکارNode ID: 453836
-
پنجاب: جیلوں سے قیدیوں کی بڑی تعداد میں رہائی کا فیصلہNode ID: 467341
-
’نئے قیدیوں کا ٹیسٹ اور سکریننگ لازمی‘Node ID: 468696
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلوں کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
اس حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے پاس بادشاہ والا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کر دے بلکہ اسے ہر صورت میں قانون کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’سمجھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا اس وقت کورونا کی وبا سے لڑ رہی ہے لیکن ہائی کورٹس نے تھوک کے لحاظ سے قیدیوں کو رہا کرکے امن عامہ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘
’قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے قانونی طریقہ کار بھی اپنایا نہیں گیا۔ ریاست، قیدی اور مدعی کو نوٹس تک نہیں بھیجا گیا۔ ہائی کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں تو وہ اس کا استعمال بھی نہیں کر سکتی۔ ‘
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ضمانتیں منسوخ کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ عدالت نے درخواست کو (3)184 کے تحت سننے کا فیصلہ کیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ گلوبل ویلیج کا حصہ ہوتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کی عالمی کوششوں کا حصہ رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے قیدیوں کو بھی کورونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا ہوں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی قیدیوں کے حوالے سے دی گئی تجاویز قبول کر لی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو تجویز دی تھی کہ عدالت موجودہ صورت حال میں ہائی کورٹس کے فیصلوں کی روشنی میں ضمانت پانے والوں میں سے تین سال سے کم سزا والے قیدیوں، 55 سال سے زائد عمر کے زیر التو مقدمات کے قیدیوں کو فائدہ دے، جب کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کی ضمانتیں منسوخ کر دے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے فیصلوں سے عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو کوئی فائدہ نہ دیا جائے۔
عدالت نے کورونا وبا سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات پر سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا۔
کورونا وائرس کے باعث ہسپتالوں کی بندش اور سہولیات سے متعلق معاملے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کے حوالے سے کیا اطلاعات ہیں۔ پولیس وین بھر کر ڈاکٹروں کو لے کر گئے تھے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ تمام ڈاکٹرز کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ڈاکٹرز کے مطالبات کیا تھے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ حفاظتی کٹس کا مطالبہ کر رہے تھے، کابینہ نے ڈاکٹرز کے مطالبات کی منظوری دے دی ہے۔
