رپورٹ میں جیلوں میں قیدیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان میں وفاقی وزارتِ انسانی حقوق کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں قید پانچ ہزار سے زائد قیدی ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستانی جیلوں میں قیدیوں کی تفصیلی رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک بھر کی جیلوں میں بیمار قیدیوں کی تفصیلات طلب کی تھیں اور اس ضمن میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چاروں صوبوں میں کل پانچ ہزار 207 قیدی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں جن میں سے 425 قیدی ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہیں۔
ایچ آئی وی ایڈز کے شکار قیدیوں میں سب سے زیادہ پنجاب میں 257 قیدی، سندھ میں 116، خیبر پختنخوا میں 39 جبکہ بلوچستان کی جیلوں میں 13 قیدی ایچ آئی وی ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں۔
وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق 18 سو 23 قیدی ہپاٹائیٹس کا شکار ہیں جبکہ 594 قیدی ذہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تین صوبوں کی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی 41 جیلوں میں سب سے زیادہ 45 ہزار 324 قیدی موجود ہیں جہاں قیدیوں کی گنجائش 32 ہزار 477 ہے۔
صوبہ سندھ کی 24 جیلوں میں 13 ہزار 538 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے جہاں 16 ہزار 315 قیدی موجود ہیں۔
اسی طرح خیبرپختنوخوا کی 20 جیلوں میں چار ہزار 519 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جہاں نو ہزار 900 قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
صوبہ بلوچستان کی 11 جیلوں میں دو ہزار 585 قیدیوں کی گنجائش ہے جہاں دو ہزار 122 قیدی موجود ہیں۔
جیلوں میں طبی سہولیات کا فقدان
رپورٹ میں جیلوں میں طبی سہولیات کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جیل ہسپتالوں میں الٹرا ساونڈ، آکسیجن سلنڈرز، ای سی جی مشینز اور لیبارٹریز وغیرہ کی کمی ہے۔
پنجاب کی 10 فیصد جیلوں میں ایمبولینس کی سہولت میسر ہی نہیں، بلوچستان کی جیلوں کے لیے صرف چار ایمبولینسز موجود ہیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں سے صرف خیبر پختونخوا میں دو دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ باقی ملک میں کسی بھی جیل میں کوئی ڈینٹسٹ موجود نہیں ہے۔
ملک بھر میں 96 جیلوں میں قید 73 ہزار سے زائد قیدیوں کے لیے صرف 193 میڈیکل آفیسرز موجود ہیں جبکہ 107 میڈیکل آفیسرز کی آسامیاں خالی ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی رپورٹ کے مطابق جیلوں میں قید 245 قیدیوں کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواستیں محکمہ داخلہ کے زیر التوا ہیں جن میں سندھ کے 232 اور پنجاب کے قیدیوں کی 12 درخواستیں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ داخلہ کی جانب سے درخواستیں زیر التوا ہونے کے باعث متعدد قیدیوں کی حالت بگڑ جاتی ہے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں ایسے قیدیوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جو کہ طبی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے جسمانی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں 65 فیصد سے زیادہ قیدی سزا یافتہ ہی نہیں اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور یہ کہ خواجہ سراؤں کے لیے سپیشل یونٹ بنانے اور قیدیوں کی بیویوں کو ان کے اکاونٹس تک رسائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔