Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نئے قیدیوں کا ٹیسٹ اور سکریننگ لازمی‘

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وائرس کے باعث قیدیوں کی رہائی کے ماتحت عدالتوں کے فیصلے معطل کیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جیلوں میں منتقل کیے جانے والے تمام نئے قیدیوں کی سکریننگ اور کورونا ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا ہے کہ بتایا جائے ہسپتال کورونا سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔
بدھ کو جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے اختتام پر عدالت عظمیٰ نے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور بستروں کی دستیابی سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی۔
سپریم کورٹ نے کورونا سے بچاؤ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے اور پوچھا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو کیا تربیت دی گئی۔
عدالت نے رپورٹس میں حفاظتی کٹس اور دستیاب وینٹلی لیٹر کی تفصیلات بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان کی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم بھی دیا اور ہدایت کی کہ اگر کسی قیدی میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو اسے قرنطینہ کیا جائے۔
عدالت کو صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز نے بتایا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے جا چکے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے پانچ رکنی لارجر بینچ کی سربراہی میں کورونا کے باعث قیدیوں کی رہائی کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا جائزہ لینا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں جب کہ سندھ ہائی کورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا۔ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے۔‘
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے، ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی ملک میں مشکل کام ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کورونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں، کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ ڈاکوئوں کے کنٹرول میں ہے۔
’ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کورونا مریض کے معائنے کے نام پر گھروں کا صفایا کر رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جب سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کرپشن کرنے والوں کا دھندا لاک ڈائون سے بند ہوگیا، سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ وہ سندھ کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کرپشن کرنے والوں کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے، کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا۔‘
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا۔ چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ان کو اس کی پروا نہیں اور عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ  استدعا ہے عدالت اس مقدمے میں یونیفارم گائیڈ لائن دے۔
عدالت نے حکومت کو ہدایات جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی اور کہا کہ قیدیوں کی رہائی کی قانونی حیثیت پر بحث آئندہ سماعت پر کی جائے گی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں