پاکستان میں حکومت نے کورونا وائرس کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے افراد کو نوکریاں فراہم کرنے کے لیے تمام صوبوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ بلین ٹری پراجیکٹ میں فوری طور پر بھرتیاں شروع کی جائیں۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی، جو صوبوں کے جنگلات اور جنگلی حیات کے محکموں کے ساتھ مل کر ملک میں درختوں میں اضافے اور ماحول کو بہتر بنانے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کر رہی ہے، کے حکام نے اردونیوز کوبتایا کہ ماحولیاتی تحفظ کے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے لاکھوں افراد کی ضرورت ہے اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا بحران سے بے روزگار ہونے والے افراد کو اس منصوبے کا فائدہ پہنچایا جائے۔
وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے تحت چلنے والے بلین ٹری پراجیکٹ کے ڈائریکٹر سلمان خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت نے بے روزگار ہونے والے افراد کو اس منصوبے سے مستفید کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کر لیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مشیر برائے وزیراعظم ملک امین اسلم اگلے چند روز میں کریں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
فلسطینی خاتون نے بیروزگاری کا حل نکال لیاNode ID: 454371
-
کورونا سے ڈھائی کروڑ افراد بے روزگار ہوں گے: اقوام متحدہNode ID: 465646
-
پاکستان کے دیہی علاقوں کی رونقیں بحالNode ID: 473376
قبل ازیں سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کی پارلیمانی سیکرٹری جویریہ آہیر نے بھی اعلان کیا تھا کہ بیرون ملک سے بیروزگار ہو کر وطن واپس لوٹنے والے پاکستانیوں کو اس پراجیکٹ میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
سلمان خان نے بتایا کہ بلین ٹری پراجیکٹ پر عملی کام کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ متاثر نہیں ہوا کیونکہ پودے لگانے کا کام میدانوں، بیابانوں اور کھلی فضا میں ہو رہا ہے اور وہاں وائرس کے نقصان پہنچانے کے امکانات کم ہیں۔اس لیے حکومت نے اس منصوبے میں شامل تمام صوبائی محکموں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دیں تاکہ منصوبے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جا سکے۔
’ایک تخمینے کے مطابق اس منصوبے میں ابتدائی طور پر کورونا سے متاثرہ ایسے ڈیڑھ لاکھ افراد شامل کیے جائیں گے جن کی آمدن پندرہ ہزارروپے تک تھی۔ تاہم آگے چل کر یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کیا جانے والا بلین ٹری پراجیکٹ صرف دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس میں جنگلی حیات کے تحفظ اور سروے اور کم از کم سات نیشنل پارکس بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں اور آگے چل کر اس میں مزید افرادی قوت کی ضرورت پڑے گی۔
سلمان خان کا کہنا تھا کہ حکومت کو عالمی بنک اور ایشیائی ترقی بنک سے بھی تین سے چھ ارب ڈالر گرانٹ ملنے کی توقع ہے جس کے کچھ حصے کو استعمال میں لاتے ہوئے شہروں میں بھی کلین اینڈ گرین پراجیکٹس شروع کیے جائیں گے اور وزیراعظم کے ’کلین اینڈ گرین چیمپیئن‘ پروگرام کے تحت زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس سے مستفید کیا جائے گا اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔
بلین ٹری پراجیکٹ پر کام کرنے والی ایک اور وفاقی افسر نورین مصطفٰے نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ اس منصوبے سے پہلے جب ایک ارب درخت لگانے کا پراجیکٹ مکمل کیا گیا تھا تو اس وقت پانچ لاکھ نوکریوں کی گنجائش پیدا ہوئی تھی۔
’لہٰذا حکومت پر امید ہے کہ دس ارب درختوں کا یہ منصوبہ بڑی تعداد میں دیہاڑی دار افراد کو شامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
ان کے مطابق اس منصوبے کا موجودہ فیز جس میں تین ارب کے قریب درخت لگائے جانے ہیں کے لیے بڑی تعداد میں فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے صوبوں کو ہنگامی رفتار سے کام تیز کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
درخت لگانے کے کام سے براہ راست وابستہ محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا نے لاک ڈاون کے دنوں میں ہی 19 ہزار کے لگ بھگ نئے لوگ بھرتی کیے ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’شجرکاری کے اس موسم میں حکومت نے 24 کروڑ درخت لگانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کا 60 فیصد پہلے ہی حاصل ہو گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر شروع کیے گیے اس خصوصی ماحولیاتی منصوبے کو سال 2023 تک مکمل ہونا ہے۔
وفاقی وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے منسلک بعض محقیقن کے مطابق کورونا لاک ڈاون بحران پاکستان میں ایک کروڑ 50 لاکھ کے قریب لوگوں کو بے روزگار کر سکتا ہے۔
تاہم ماحولیات کے ماہر علی توقیر شیخ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں اتنی بڑی تعداد میں دیہاڑی دار افراد کو شامل کرنے سے اس کی افادیت پر اثر پڑے گا۔
‘پودے لگانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا عام دیہاڑی دار مزدوروں کا کام نہیں بلکہ ان لوگوں کا کام ہے جو پودوں کو سمجھتے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اس منصوبے میں بدعنوانی کے امکانات ہیں کیونکہ اس میں شامل سرکاری افسران ملازمین کی فرضی فہرستیں بنا کر ان کی تنخواہیں خود حاصل کر سکتے ہیں اور عملی طور پر پودے لگانے کا پورا عمل خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔‘
ماہر معیشت قیصر بنگالی بھی سمجھتے ہیں کہ اس تجویز پر عملدرآمد کا بہت زیادہ دار ومدار افسران اور اہلکاروں کی نیتوں پر ہے۔
’اس منصوبے میں گنجائش موجود ہے لیکن یہ اس میں شامل فیصلہ سازوں کی نیتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس گنجائش کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہیں یا غلط طریقے سے۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں