انڈیا کے متنازع صحافی اور ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی گذشتہ دو دنوں سے خود خبروں میں ہیں اور اب تک ان کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں 100 سے زیادہ ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
ریپبلک ٹی وی کے ایک پروگرام 'پوچھتا ہے بھارت' میں انڈیا کی اہم سیاسی جماعت کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے حوالے سے ارنب کی جانب سے متنازع بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
انھوں نے مہاراشٹرا کے پالگھر میں دو سادھوؤں اور ایک ڈرائیور کی موت پر سوال پوچھا تھا۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا: آبادیوں سے سوشل میڈیا تک مذہبی منافرت کا مظاہرہNode ID: 473251
-
انڈین وزیر کا سینکڑوں کلومیٹر سفرNode ID: 473496
-
مودی کو ’قصاب‘ کہنے والا پولیس افسر مشکل میںNode ID: 473801
ان ایف آئی آرز کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے ارنب گوسوامی کو تین ہفتوں کے لیے گرفتاری سے روکا ہے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور ایم آر شاہ پر مشتمل بینچ نے ارنب کی درخواست پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت کی۔
دو ججز کے بینچ نے ایف آئی آرز کو ختم کیے جانے کا فیصلہ تو نہیں سنایا لیکن انھیں تین ہفتوں کی مہلت ضرور مل گئی ہے، اس دوران وہ ضمانت قبل از گرفتاری کرا سکتے ہیں۔
ارنب کی جانب سے سینیئر وکیل موکول روہتگی اور سدھارتھ بھٹناگر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آرز میڈیا کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔ روہتگي نے کہا کہ 'ٹی وی پر سیاسی مباحثے ہوں گے اور سوال ہی جائيں گے۔'
اس کے جواب میں کانگریس کی جانب سے سینیئر وکیل اور سابق وزیر کابینہ کپل سبل نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی کے نام پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
کانگریس کے کارکن گورو پانڈھی نے ٹویٹ کی کہ 'ارنب گوسوامی نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لیے اپنے خلاف درج ایف آئی آرز کو دبانے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ سپریم کورٹ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور مہاراشٹر کے ناگپور میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کے ساتھ ان کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کو ایک ساتھ نتھی کر دیا۔ گھڑی کی سوئی چل رہی ہے ٹک ٹک، ٹک۔۔۔'
Arnab Goswami approached the SC to quash FIRs filed against him for instigating communal hatred. The Supreme Court refused to do so and clubbed all the FIRs together with the one filed in Nagpur, Maharashtra!
The clock is ticking for this lapdog!
Tik Tok. Tik Tok. Tik Tok.
— Gaurav Pandhi (@GauravPandhi) April 24, 2020
گذشتہ روز ارنب نے کہا تھا کہ کانگریس پارٹی نے انھیں اور ان کی اہلیہ کو مارنے کے لیے غنڈے بھیجے تھے۔ اس لیے ان کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
'ارنب اٹیکڈ' کا ٹرینڈ بھی گذشتہ ٹوئٹر پر کافی دیر تک سرفہرست رہا۔ معروف ٹی شو ہوسٹ تحسین پونا والا نے ٹویٹ کی کہ 'میرے خیال سے ارنب گوسوامی کے دعوے پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔
پہلا یہ کہ جب ارنب پر حملہ ہوا تو ان کی سکیورٹی کیا کر رہی تھی؟ دوسرا یہ کہ آخر کوئی صرف روشنائی سے ارنب جی پر حملہ کیوں کرے گا تاکہ ان کے لیے ہمدردی پیدا ہو؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا اس ہمدردی کی وجہ کہیں فیک نیوز پر قانونی چارہ جوئی کا خوف تو نہیں؟'
I believe shri #Arnab Goswami's claims raises many questions:
1)while #ArnabAttacked took place what was his security doing?
2)why would someone attack #Arnab ji with ink only to create sympathy for him?
3)is this sympathy cause of the fear of legal action over fake news? pic.twitter.com/Hrb4E8JEx9— Tehseen Poonawalla Official (@tehseenp) April 23, 2020
اسی ہیش ٹیگ کے ساتھ رولف گاندھی نامی ایک صارف نے پرانے واقعے کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ 'سنہ 2002 میں ارنب کی کار پر ترشول لہراتے ہوئے غنڈوں نے نریندر مودی کی رہائش کے پاس حملہ کیا تھا۔ لیکن انھیں چھوڑ دیا گیا کیونکہ وہ اقلیتی برادری سے نہیں تھے۔ اب ان پر کس نے حملہ کر دیا۔ کیا وہ سنہ 2002 کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ وزیر اعظم اب تک خوفزدہ کیوں ہیں؟'
گذشتہ روز این ڈی ٹی وی کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ندھی رازدان نے ٹاپ ٹرینڈز کا سکرین شاٹ لے کر موجودہ حالات پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ 'مجھے خوشی ہے کہ انڈیا کے ٹوئٹر ٹرینڈز اس وبائی بحران کے آئینہ دار ہیں جو ہمیں درپیش ہے۔‘
So glad India Twitter trends reflect the crisis of the pandemic we all face. pic.twitter.com/gJPFncmoBy
— Nidhi Razdan (@Nidhi) April 23, 2020