انڈیا میں جاری لاک ڈاؤن میں مذہبی منافرت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اگر ایک طرف یہ زمینی سطح پر دیکھا جا رہا ہے تو اس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی نظر آ رہا ہے۔
گذشتہ دنوں انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں ایک ہجوم نے تین لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جس کی بازگزشت ابھی تک سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
شادی کے لیے سائیکل پر 850 کلومیٹر کا سفرNode ID: 473011
-
انڈیا: 'ہسپتال میں کورونا کا شکار مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے'Node ID: 473111
-
لاک ڈاؤن میں چاول نہ ملے تو شکاریوں نے زہریلا کوبرا کھا لیاNode ID: 473211
مہاراشٹر میں پالگھر کی پولیس نے کہا ہے کہ اس معاملے میں 110 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیاہے جن میں نو افراد نابالغ ہیں۔ 101 افراد کو 30 تاریخ تک پولیس کسٹڈی میں رکھا گیا ہے جبکہ نو افراد کو بچوں کے اصلاحی مراکز بھیج دیا گیا ہے۔
اپنے ٹویٹ میں پولیس نے کہا ہے کہ جانچ جاری ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر سوموار کی صبح ’پالگھر ماب لنچنگ‘ پہلے نمبر پر ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس میں مرنے والے چونکہ ہندو سادھو تھے اس لیے میڈیا خاموش ہے۔
110 ppl have been arrested in this case out of which 9 are juvenile. 101 people have been remanded in police custody till 30th while 9 have been sent to juvenile home. Further investigation is going on in the matter. An enquiry has also been initiated to look into the incident.
— Palghar Police (@Palghar_Police) April 19, 2020
مہاراشٹر کے سی ایم او نے اپنے ٹویٹ میں اس سے قبل ہی وضاحت کر دی ہے کہ پالگھر میں فوری طور پر ایکشن لیا گیا ہے۔ پولیس نے دو سادھوؤں اور ایک ڈرائیور کو مارے جانے والے دن ہی تمام ملزمان کو پکڑ لیا ہے۔
The Palghar incident has been acted upon. The police has arrested all those accused who attacked the 2 sadhus, 1 driver and the police personnel, on the day of the crime itself.
— CMO Maharashtra (@CMOMaharashtra) April 19, 2020
یہ واقعہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کا ہے اور حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کے متعلق اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب وبائی مرض کورونا کے تعلق سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور شاید اسی لیے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو ملک کے جوانوں سے ملک میں اتحاد قائم رکھنے کی اپیل کی ہے۔
خبررساں ادارے اے این آئی نے وزیر اعظم کے حوالے سے ٹویٹ کیا ہے کہ ’کووڈ حملہ کرنے سے پہلے نہ کوئی نسل دیکھتا ہے نہ مذہب، نہ رنگ، نہ ذات، نہ عقیدہ، نہ زبان یا سرحد دیکھتا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف ہمارا بنیادی رویہ اتحاد اور بھائی چارے کا ہونا چاہیے۔ ہم اس میں ساتھ ساتھ ہیں۔‘
#COVID19 does not see race, religion, colour, caste, creed, language or borders before striking. Our response and conduct thereafter should attach primacy to unity and brotherhood. We are in this together: Prime Minister Narendra Modi pic.twitter.com/yOyeWxH1MG
— ANI (@ANI) April 19, 2020
انڈیا میں جاری مسلم مخالفت پر عرب کے دانشوروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دی ملی کرانیکل میں شائع ایک خبر کے مطابق مشرق وسطی کے دانشوروں نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف منافرت میں اضافہ ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف منافرت پھیلائی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ الشریکہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری بہیمانہ تشدد کا نتیجہ مسلم ممالک میں انڈیا کے سامانوں کا بائیکاٹ ہو سکتا ہے۔‘
Every year, more than 55 billion $ are transferred to India from the Gulf countries, and more than 120 billion annually from all Muslim countries.
Indians (mostly Hindus) are treated well in these countries.
In return, how are Muslims treated in India?#india#Indian
— عبدالرحمن النصار (@alnassar_kw) April 16, 2020