چلیں بھئی مبارک ہو۔ وفاقی کابینہ نے منگل کو طے کر لیا کہ سنیچر سے کچھ مزید کاروبار بھی مرحلہ وار کھول دیا جائے گا تاکہ لاک ڈاؤن (جو کبھی عملاً تھا ہی نہیں) سے اجیرن لوگوں کی زندگی قدرے بہتر ہو سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ غالباً اس قومی نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا ہے کہ ’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘۔ اب یہ لڑائی چھپ کر نہیں بلکہ لوگ یک مٹھ ہو کر وائرس کو سڑکوں، گلیوں، مارکیٹوں، کارخانوں، بسوں اور ٹرینوں میں دوڑا دوڑا کے ماریں گے۔
رمضان سے قبل حکومت نے بیس کڑی شرائط و ضوابط کے تحت مساجد عام نمازیوں کے لیے کھول دیں۔ ان شرائط و ضوابط پر کس قدر سختی سے عمل ہو رہا ہے کسی بھی مسجد میں جا کر دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
حفاظتی اقدامات بڑی مساجد تک محدودNode ID: 475266
-
زچہ بچہ وارڈز بند، اگلی نسل بھی کورونا کی زد میںNode ID: 476911
-
'آفریدی بھی وزیراعظم بننا چاہتے ہیں؟'Node ID: 477011
اس سے پہلے چودہ اپریل کو حکومت نے تعمیراتی شعبے اور برآمدی صنعتوں سمیت پانچ بنیادی سیکٹرز کو کھولا اور اب کابینہ کے فیصلے کے مطابق چھوٹا کاروبار اور ٹرانسپورٹ بھی کھولنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جبکہ وزیر ریلوے چاہتے ہیں کہ عید سے پہلے پہلے سپیشل ٹرین سروس بھی کھل جائے تاکہ عید کے موقع پر بڑے شہروں میں روزی روزگار کے لیے آنے والے چھوٹے دور دراز علاقوں کے لوگ ٹیکسیوں میں منہ مانگی قیمت دے کر یا مال بردار ٹرکوں میں چھپ کر اور ٹھنس کر جانے کے بجائے تین فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے ماسک لگا کے سینٹائزر سے ہاتھ ملتے ہوئے جراثیم کش ادویات سے دھلی ٹرینوں میں سفر کر سکیں۔
وزیرِاعظم کے بقول ان مجوزہ اقدامات کے پیچھے منطق یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد باقی ممالک کی نسبت کم ہے۔ وفاقی وزارتِ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کورونا متاثر ممالک کی فہرست میں چوبیسویں اور اموات کی تعداد کے اعتبار سے انتیسویں نمبر پر ہے۔ لہذا لاک ڈاؤن ( جیسا کیسا بھی تھا) نرم کیا جا رہا ہے۔

پچھلے ایک ماہ میں حالات کتنے بہتر ہوئے؟ اس کا اندازہ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ 15 اپریل کو (تین ہفتے پہلے) پاکستان میں متاثرین کی تعداد چھ ہزار پانچ سو اٹھائیس تھی جو اس وقت 24 ہزار پار کر چکی ہے یعنی تین ہفتے میں چار گنا اضافہ۔ اس عرصے میں نئے کیسز کی تعداد اوسطاً ایک سو سے بڑھ کے بارہ سو روزانہ تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح اموات کا تناسب دیکھا جائے تو 15 اپریل تک ہلاکتوں کی تعداد 124 تھی جو اب بڑھ کے ساڑھے پانچ سو تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی تین ہفتے میں لگ بھگ ساڑھے چار گنا اضافہ۔
پروجیکشن یہ ہے کہ مئی کے آخر تک پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے ہندسے کو چھو سکتی ہے۔ اس کے باوجود صحت کے قومی ڈھانچے پر ترس کھائے بغیر جس طرح کاغذی لاک ڈاؤن کو بھی اٹھایا جا رہا ہے اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ اب کورونا سے گلی گلی دو بدو دستی جنگ ہو گی، اور ایک ماہ بعد اگر مجبوراً مکمل کرفیو طرز کا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا تو یہ سو جوتے اور سو پیاز کھانے جیسا ہوگا۔
دلیل یہ ہے کہ جب امیر مغربی ممالک لاک ڈاؤن میں نرمی پر مجبور ہو گئے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں، مگر یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ اٹلی اور سپین سمیت مغربی یورپ کے ممالک پچھلے دو ماہ سخت ترین لاک ڈاؤن میں رہے ہیں اور انہوں نے تب ہی بتدریج نرمی کا سوچا ہے جب وہاں متاثرین کا گراف مسلسل اوپر جانے کے بجائے سیدھا ہونے لگا ہے جبکہ پاکستان جیسے ممالک میں تو کورونا کی پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے اور گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر ہرگز اعتراض نہیں کہ آپ لاک ڈاؤن پر مکمل عمل درآمد میں ناکامی کے باوجود مغربی ماڈل کو لاک ڈاؤن نرم کرنے کی نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اگر اصول یہی ہے تو آئندہ کوئی یہ کہے کہ انسانی جان و مال کے تحفظ، قانون کی حکمرانی، شخصی آزادی و حرمت اور جمہوری عمل کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں بھی مغربی ماڈل سے رجوع کر لیں تو پھر یہ بھاشن ہرگز مت دیجیے گا کہ مغربی نظامِ جمہوریت و قانون ہمارے سیاسی کلچر، مشرقی تہذیبی اقدار اور عوامی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ ہم کسی کی سستی نقالی کے بجائے اپنے فیصلے اپنے مخصوص حالات کی بنیاد پر ہی کریں گے۔
عالمی ادارہِ صحت نے لاک ڈاؤن نرم کرنے کے لیے جو پانچ شرائط وضع کی ہیں کیا ان پر بھی کسی ریاستی فیصلہ ساز کی نگاہ پڑی؟ کیا پاکستان ان پانچ میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری کر رہا ہے (یہ شرائط ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں)۔
ٹرمپ کو تو امریکی معیشت کھولنے کی اس لیے جلدی ہے کیونکہ اسے چھ ماہ بعد صدارتی انتخاب درپیش ہے۔ آپ کو اتنی عجلت کیوں ہے؟ ابھی تو 2023 میں تین برس باقی ہیں۔ امریکی معیشت کی بنیاد صنعت و ٹیکنالوجی اور سروس سیکٹر ہے۔ آپ کے پاس سوائے افرادی قوت کے اور کون سی ٹھوس معاشی بنیاد ہے اور یہی افرادی قوت تو کورونا کے نرغے میں ہے۔
