Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حفاظتی اقدامات بڑی مساجد تک محدود

شہری علاقوں میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں بہت کمی دیکھنے میں آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات کے تناظر میں انتظامیہ کو رمضان المبارک میں باجماعت نماز بالخصوص تراویح کے حوالے سے علمائے کرام کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔ 
شہری علاقوں میں بڑی مساجد میں تو ایس او پیز پر کافی حد تک عمل ہو رہا ہے لیکن محلوں میں چھوٹی مساجد اور دیہی علاقوں میں نمازی ایس او پیز کا خیال نہیں رکھ رہے۔ 
دوسری جانب پچاس سال سے زائد عمر کے افراد پابندی کے باوجود مساجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ 

 

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’حکومت مساجد میں احتیاطی تدابیر کے حوالے سے پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ دیہی علاقوں اور شہروں میں محلے کی چھوٹی مساجد میں لوگ تعاون نہیں کر رہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں ان کو صرف وارننگ دے رہے ہیں۔ علماء کی اپنی کمیٹیاں ہیں ان کے ذریعے بھی پیغام پہنچا رہے ہیں۔ اگر علماء تعاون نہیں کریں گے تو پھر معاہدے کی رو سے ہم نظرثانی کا حق رکھتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 'عموما بڑی مساجد میں ہی زیادہ رش ہوتا تھا وہاں تو صورت حال بہتر ہے لیکن ہم نے پولیس اور دیگر اداروں کو فی الحال کسی کارروائی سے روک رکھا ہے۔ صرف آگاہی دے رہے ہیں۔ دو چار دنوں تک صورت حال واضح ہو جائے گی اور پھر بھی عمل درآمد نہ ہوا تو مجبوراً سب پی کو بند کرنا پڑے گا۔‘
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی صورتحال مخلتف نہیں ہے۔ کوئٹہ سے اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق بھی شہری علاقوں کی بڑی مساجد میں کسی حد تک تو سماجی فاصلے کے اصولوں اور دیگر اقدامات پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ نواحی علاقوں اور دیہات میں لوگ ان اقدامات کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ 
اسلام آباد میں اگرچہ صدر مملکت خود بھی مساجد میں راتوں کو اچانک دورے کرکے انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں اور زور دے رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ 

صدر مملکت اسلام آباد میں واقع ایک مسجد کا دورہ کر رہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ 'صدر مملکت اورعلمائے کرام کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔ رمضان کے ابتدائی ایام ہیں اس لیے صرف یاد دہانی اور درخواست ہی کی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 'گائیڈ لائنز پر عمل نہ کرنے والوں کی فہرستیں بن رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں دیکھیں گے کہ ہماری درخواست پر کس نے عمل نہیں کیا۔ اس کے خلاف طے شدہ معاہدے کے تحت ہی کارروائی عمل میں لائیں گے۔ وہ کارروائی پولیس کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔‘
پاکستان میں رمضان المبارک میں تراویح اور باجماعت نماز کا معاملہ حکومت اور علمائے کرام کے درمیان صدر مملکت کی سطح پر جا کر حل ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں علمائے کرام کے ساتھ 20 نکاتی معاہدہ طے پایا۔ جس کے تحت سماجی فاصلے کے اصولوں اور دیگر ضروری ہدایات پر مکمل عمل کی صورت میں ہی مساجد میں نماز تراویح کی اجازت دی گئی۔ 
ایک طرف تو سندھ حکومت نے اس معاہدے کے برعکس اپنے صوبے میں مساجد مکمل بند کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں ملک بھر کے ڈاکٹرز نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

’ 'شہر کی تمام بڑی مسجدوں میں سختی کی جا رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ڈاکٹروں کی تنظیموں نے پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومت سے مساجد بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہسپتالوں میں مریض رکھنے کی جگہ تک باقی نہیں بچے گی۔ اس کے باوجود حکومت علماء کے ساتھ معاہدے پر کاربند رہی۔ خود وزیراعظم نے کہا کہ وہ مساجد بند نہیں کر سکتے۔ 
اس معاہدے پر عمل درآمد کا کے حوالے سے مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو شہری علاقوں میں مساجد میں گزشتہ رمضان کے مقابلے میں نمازیوں کی تعداد میں بہت کمی دیکھنے میں آئی ہے اور لوگ اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم کورونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات صرف بڑی مساجد تک ہی محدود ہیں۔ 
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی معروف مسجد عید گاہ اور دیگر بڑی مساجد میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں اور نمازیوں کے قیام کی جگہ پرنشانات بھی لگائے گئے ہیں۔ 
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک امام مسجد حافظ عبدالواحد نے بتایا کہ 'شہر کی تمام بڑی مسجدوں میں سختی کی جا رہی ہے۔ جن مساجد میں پولیس کے آنے کا خدشہ نہیں وہاں پر عمل درآمد بھی نہیں ہو رہا۔ لوگ روٹین میں نماز پڑھ رہے ہیں۔‘

’ دیہات میں سب کے سب معمول کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

دیہات میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کے مختلف دیہی علاقوں سے نمازیوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مساجد میں سماجی فاصلے کے اصول پر من و عن عمل نہیں ہو رہا۔
دیہی مساجد میں دو سے تین صف نمازی موجود ہوتے ہیں۔ کہیں پر فاصلہ رکھا جا رہا ہے اور کہیں پر کوئی پرواہ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنا جائے نماز لے کر آرہے ہیں۔ 
ضلع گجرات کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے خطیب عبداللہ سیالوی نے کہا کہ 'ہمارے گاؤں کی 80 فیصد مساجد میں معمول کے مطابق نماز باجماعت اور تراویح پڑھی جا رہی ہے۔ قالین نکال کر پرانی صفیں بچھا دی ہیں۔ نمازیوں کو دور دور ہو کر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا کہا لیکن کسی نے بات نہیں مانی۔‘
انھوں نے بتایا کہ 'میں نے اپنے گاؤں کے علاوہ قریب قریب باقی تمام دیہات سے بھی معلوم کیا ہے سب کے سب معمول کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں۔ احتیاطی اقدامات صرف شہروں کی مساجد میں ہی سن رہے ہیں۔‘

اسلام آباد میں صدر مملکت خود بھی مساجد میں راتوں کو اچانک دورے کرکے انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

50  سال سے زائد عمر کے افراد کے مساجد میں نماز پڑھنے کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ 'میں خود پچاس سال سے زائد کا ہوں، میرا چھوٹا بھائی پچاس سال ہے اور والد صاحب اسی برس کے قریب ہیں۔ ہم سب تو مسجد جا رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ انھوں نے مسجد کے پچاس سال سے زائد کے دس نمازیوں کے نام لے کر کہا 'یہ سب مسجد نہ آئیں تو پھر تو مسجد خالی ہو جائے گی۔‘

شیئر: