Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استعمال شدہ ماسکس سے کورونا کا خدشہ

اب جب کہ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کر دیا ہے بڑے شہروں میں کورونا سے متاثرہ افراد کے استعمال شدہ ماسکس اور فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 'شہروں کی انتظامیہ کو استعمال شدہ اشیا اور فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے انتظامات کرنا ہوں گے ورنہ کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے۔'
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد میں کورونا قرنطینہ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر سرتاج علی نے بتایا کہ 'انہوں نے اس سے قبل بھی شہری اداروں کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ کورونا کی صورت حال میں استعمال شدہ ماسکس وغیرہ سے مرض پھیل سکتا ہے اس لیے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرے۔'
ڈاکٹر سرتاج کا کہنا تھا کہ 'تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام استعمال والے ماسکس پر کورونا وائرس دو دن تک موثر حالت میں رہ سکتا ہے اور اسے دوبارہ استعمال کرنے والے شخص تک منتقل ہو سکتا ہے۔'
'دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ استعمال شدہ ماسک یا دستانے سڑکوں اور گلیوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں سے اٹھا کر ناصرف بچے وغیرہ اسے دوبارہ پہن لیتے ہیں بلکہ کچھ لوگ انہیں بیچ بھی رہے ہوتے ہیں جو کہ وبا کے پھیلاؤ کے دنوں میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔'
ڈاکٹر سرتاج کا کہنا ہے کہ اس لیے ہم نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ 'ماسکس وغیرہ کے لیے علیحدہ سے انتظام کریں اور انہیں محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا اہتمام کیا جائے۔'
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سرتاج کا کہنا تھا کہ 'سڑک کنارے ڈنڈوں پر ماسک بیچنے والے کئی لوگ اگر صابن سے دھو کر بھی ماسک بیچ رہے ہوں تو بھی نقصان دہ ہے کیونکہ دھونے کے بعد ماسک کا فلٹر ختم ہو جاتا ہے اور وہ کورونا سے بچاؤ کے لیے بے کار ہوتا ہے۔'
ایک اور سوال پر کہ کیا سڑک یا باہر گلی میں پر پھینکے گئے ماسک یا دستانے وغیرہ کے قریب سے گزرنے والے عام افراد بھی کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں ڈاکٹر سرتاج کا کہنا تھا کہ 'کورونا عام ہوا میں زیادہ تر نہیں رہ سکتا البتہ چھوٹے قطروں کی شکل میں ہوا میں رہتا ہے مگر وہ قطرے صرف متاثرہ شخص سے ایک میٹر سے کم فاصلے پر کھڑے شخص تک ہی پہنچ سکتے ہیں اسی لیے ایک میٹر تک سماجی فاصلہ رکھنے کا کہا جاتا ہے۔'

’انتظامیہ کے پاس وسائل نہیں‘

 ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ہسپتالوں کے لیے تو انتظامیہ نے طبی فضلہ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے چند دن قبل گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں جن کے تحت تمام خطرناک فضلہ محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا لازم ہےْ
’تاہم شہری علاقوں سے عام کوڑا کرکٹ اُٹھانا میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے ذمہ ہے اور اسلام انتظامیہ انہیں مدد فراہم کرتی ہے۔'
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ایم سی آئی کے ڈائریکٹر سینی ٹیشن سردار خان زمری کا کہنا تھا کہ 'کارپوریشن کے پاس اتنے وسائل جیسے کہ پلاسٹ بیگز یا افرادی قوت دستیاب نہیں کہ سڑکوں پر پڑے ماسکس وغیرہ کو علیحدہ سے ڈسپوز کرنے کا انتظام کرے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس ذریعے سے کورونا وائرس پھیلنے کے امکانات خاصے کم ہوتے ہیں۔'
سردار خان زمری نے واضح کیا کہ 'ایم سی آئی کی ٹیمز اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ گھروں یا گلیوں میں صفائی اور کچرے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں اور ڈبل پلاسٹک بیگ میں کورونا مریضوں کی استعمال شدہ اشیا کو پیک کر کے کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے والی سائٹ پر لے جاتے ہیں۔'
انہوں نے واضح کیا کہ 'ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کے استعمال شدہ حفاظتی سامان کو ٹھکانے لگانا ہر ہسپتال کی اپنی ذمہ داری ہے اور ایم سی آئی ڈاکٹروں کی کالونی کا صرف گھریلو کوڑا کرکٹ ڈرم سے مشین کے ذریعے گاڑی میں منتقل کر کے لے جاتی ہے۔'

صفائی کے عملے کے لیے حفاظتی اقدامات

ڈائریکٹر سینی ٹیشن کے مطابق 'ایم سی آئی کے 17 سو کے قریب نجی اور سرکاری اہلکار شہر بھر میں خطرناک حالات میں بھی صٖفائی ستھرائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک خوش قسمتی سے کوئی بھی کورونا کا شکار نہیں ہوا۔'
ان سے پوچھا گیا کہ صفائی کے عملے کو کورونا سے بچاؤ کے لیے کیا حفاظتی سامان دیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ 'عملے کے پاس فی الحال کِٹس نہیں ہیں تاہم انہیں دستانے اور ماسک مہیا کیے جا رہے ہیں۔'
'اب یہ عملے کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاط سے کام لے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم اسی ہفتے عملے کے لیے 600 کے قریب کورونا کی حفاظتی کِٹس فراہم کرے گی۔'
سردار خان زمری کا کہنا تھا کہ 'وہ خود بھی عملے کے ساتھ صبح سات بجے سے صفائی کے کام کی نگرانی کرتے ہیں اور متاثرہ علاقوں جنہیں انتظامیہ نے کورونا کی وجہ سے سیل کر دیا ہو کا ہر روز دورہ کرتے ہیں تاکہ ناصرف عملے بلکہ شہریوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔'

شیئر: